Thursday, November 5, 2015

استولا 3: تم اس جزیرے پہ بھی اترنا

طلوع آفتاب سے قبل استولا۔ کاپی رائیٹس: نسرین غوری

یومِ ثانی:

دوسری صبح غالباً روشنی کے باعث ہماری آنکھ جلد ہی کھل گئی، گو کہ سورج ابھی تک نمودار نہیں ہوا تھا۔ لیکن کافی روشنی تھی۔ شہزاد اور علیم نے ناشتے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا۔ ایک دو اور لوگ جاگ چکے تھے ۔ لیڈر آگ لگانے مطلب آگ جلانے میں مصروف تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے بچے بچیاں خیموں اور سلیپنگ بیگز سے باہر تھے سوائے شیراز اور معیز اور صائم کے جو نہ جانے کیا بیچ کر سوئے تھے کہ جاگتے ہی نہ تھے۔ 

اب صورت حال کچھ یو ں تھی کہ علیم اینڈعلیزے کمپنی ایک جانب پتھروں سے بنے نیم دائرہ نما کچن میں گیس سلنڈر پرآلو انڈے فرائی کرنے کی تیاریوں میں تھی۔ علیزے نے بہت ہی محنت اور محبت کے ساتھ آلووں کو اسکیل سے ناپ کر با لکل چوکور کیوبز کی شکل میں کاٹا اور بہت سارا کاٹا ۔ جس پر انکو کافی داد ملی۔ دوسری جانب خضر اور شہزاد ڈائیٹ پراٹھے پکانے میں مصروف تھے، شہزاد پراٹھے بیلتے ، اور خضر انہیں کوئلوں پر تاپتے، جبکہ مزمل شعلوں کو ہوا دینے پر مامور تھے۔ 

Friday, October 30, 2015

استولا 2:خوابوں کا اک جزیرہ ہو

سارا سامان کشتی سے اتار کر ساحل پر ڈھیر کر دیا گیا ، ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر کیمپ سائیٹ تک جانا تھا اور تقریباً تیر کر جانا تھا کیوں کہ پانی چڑھاو پر تھا۔ ہم نے اپنا سارا سامان اکھٹا کیا اور ایک بڑے پتھر پر ڈھیر کردیا۔ دیکھا تو ہمارے سامان میں ہماری ہوائی چپل اور سلیپنگ بیگ غائب تھا ۔ چپل تو مل ہی گئی لیکن سلیپنگ بیگ نہ مل کے دیا۔ کافی دیر ہم سلیپنگ بیگ کے لیے پریشان اور خوار ہوئے لیکن مل کے نہ دیا۔ سامان میں دو ہی سلیپنگ بیگ تھے جو بقیہ سلیپنگ بیگز سے جدا ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے تھے ایک بیگ تو ایک اور خاتون کا تھا، دوسرا نہ جانے کس کا تھا۔ جب ہم اپنے سلیپنگ بیگ کی تلاش سے بہت ہی بےزار ہوئے تو دوسرے لاوارث سلیپنگ بیگ پر قبضہ کر لیا کہ جس کا بھی ہوگا ڈھونڈتا ہوا آئے گا ہمارا دے جائے اپنا لے جائے ۔ ورنہ بس یہی ہمارا سلیپنگ بیگ تھا۔

Wednesday, October 28, 2015

چلو چلو ، استولا چلو

استولئینز، فوٹو کریڈٹ: خضر ایم راشد

پھر اک جزیرہ خواب میں مجھے بلانے لگا

چرنا آئی لینڈ ایڈونچر کے دوران مزمل نے ذکر کیا تھا کہ اسکا ارادہ استولا آئی لینڈ جانے کا بھی ہے۔ اور میں نے اسے کہا تھا کہ جب بھی پروگرام بنے مجھے ضرور اطلاع دے۔ ایک ہفتے پہلے کنڈ ملیر نائیٹ کیمپنگ کے دوران مزمل نے دوبارہ استولا کا ذکر کیا اور کہا کہ کوئی بندہ پرائیویٹ لی استولا جانے کا پروگرام کر رہا ہے شئیرنگ کی بنیاد پر۔ میں نے اسے تفصیل بتانے کا کہا، تفصیل اس وقت اسے بھی یاد نہیں تھی۔ سو اس نے وعدہ کیا کہ واپس جا کر مجھے لنک بھیجے گا۔ 

کنڈ ملیر سے واپس آنے کے دوسرے ہی دن میں نے اسے ای میل کی کہ مجھے استولا والے پروگرام کی تفصیل بھیجو۔ اس نے ایک آن لائن دعوت نامہ قسم کا لنک بھیج دیا ۔ گھر آتے ہی فوراً چیک کیا تو مالک مقام دعوت نے ہمیں پکڑ لیا۔ دھڑ سے اسی لنک پر ایک چیٹ باکس کھل گیا ۔ "اسلام وعلیکم نسرین۔آئی ایم سو این سو، آپ کو اس پروگرام کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے تو مجھ سے پوچھ لیں۔" یہ تھے جناب خواجہ خضر ۔ ہم نے کیا پوچھنا تھا۔ سب کچھ تو اس شیٹ پر لکھا تھا۔ الٹا ہمارا انٹرویو شروع ہوگیا۔ "پہلے کبھی کہیں گئی ہیں، کسی ٹووور آپریٹر کے ساتھ ٹور کیا ہے،آپ کس کے ریفرنس سے ہیں۔ کیوں ہیں، یہ کیا ہے وہ کیا ہے" ، ساتھ میں اپنے ٹو آئی سی محسن کو بھی ملا لیا اور دونوں نے مل کر ہمیں اتنا بدحوا س کیا کہ ہمیں ان کی ٹرین روکنے کے لیے اپنی ممکنہ ہمسفر کے کےٹو بیس کیمپ ٹریک کی تڑی لگانی پڑی۔

اس شیٹ پر ممکنہ مسافروں کے نام بمعہ فون نمبرز اور کنفرمیشن اسٹے ٹس درج تھے، جیسے ہی ہم نے اپنا نام اور فون نمبر ڈالا، ہمارا فون بجنا شروع ہوگیا۔دوسری جانب خواجہ خضر تھے۔ "نسرین آپ آج میٹنگ میں آرہی ہیں؟"

ہم حیران پریشان "کون سی میٹنگ، کب اور کہاں؟"

"آج شام چھ بجے، میرے گھر پہ، مزمل نے آپ کو میٹنگ کا نہیں بتایا؟"

Thursday, October 22, 2015

مکران کوسٹل ہائی وے کے جلوے


بوزی پاس سے ذرا پہلے، مکران کوسٹل ہائی وے، سطح سمندر سے تقریباً 250 میٹر کی بلندی پر
"دادو ۔۔۔ کب آئے گا " 

یہ وہ سوال تھا جو ہمارے پیر پٹھو/سخی داتار کے سفر کے دوران فاطمہ نے بیسیوں بار ابو سے پوچھا ہوگا ۔ ہم سویرے سویرے پیرپٹھو ، ٹھٹہ کے لیے گھر سے چلے تھے ۔ لیکن راستے میں پیالہ ہوٹل پہ ناشتہ وغیرہ کرتے کچھ وقت گزرا، پھر ہم نے ایک نئے راستے سے بذریعہ سجاول بائی پاس جانے کا فیصلہ کیا جو شاید ٹھٹہ میں سے گزرنے کی نسبت زیادہ طویل لیکن رش سے مبرا تھا ۔ سو جب ہم اپنے میزبانوں کے ہاں پہنچے تو تقریباً رات ہو چکی تھی ، درمیان پر ایک جگہ لنچ کے لیے بھی رکے ۔ جہاں ہم جارہے تھے فاطمہ وہاں بچپن سے جاتی ہے۔ کئی بار جاچکی ہے، وہاں ہر سائز اور عمر کے بچے ہوتے ہیں جو اردو بالکل نہیں جانتے لیکن بچوں کا ڈاک خانہ زبان کی سرحدوں سے بلند و بالا ہوتا ہے۔ سو اس کی بچوں کے ساتھ خوب بنتی ہے۔ پھر وہاں گائے، گدھے، مرغیاں، بلی کتے اور بکریاں وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اسکا دل خوب لگتا ہے۔ اب کچھ تو راستے کی طوالت اور کچھ وہاں مزے کرنے کی جلدی نے فاطمہ کو بیزار کیا ہوتا تھا اور اس نے بار بار ابو سے " دادو کب آئے گا" پوچھ پوچھ کر باقیوں کو بے زار کر دیا تھا ۔

Monday, September 21, 2015

ہائے جاوں کہاں

کوک اسٹوڈیو8: ایپی سوڈ 6


مجھے کوک اسٹوڈیو سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ شروع شروع میں روحیل حیات والا کوک اسٹوڈیو تو پھر بھی ایک آدھ بار نظر سے گزر گیا۔ لیکن مزید کوک اسٹوڈیو میرے بس کا نہیں ۔ مجھ سے ہمارے سنہرے گیتوں کا ریپ برداشت نہیں ہوتا۔ میرا بس چلے تو خوبصورت پرانی دھنوں کی ماں بہن ایک کرنے پر کوک اسٹوڈیو کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج کروادوں۔ لیکن آج میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔
آج غلطی سے میں نے کوک اسٹوڈیو تقریباً پورا دیکھا ۔ مطلب تقریباً پوری قسط۔۔ اب بندہ بخار میں پڑا پڑا اور کیا کرے ، بخار کو بہلانےکےلیے ٹی وی پر سرفنگ ہی کرتا رہے۔ اور سرفنگ میں میرے ہاتھ کیا لگا بلکہ میں کس کے ہتھے چڑھ گئی نہ پوچھو۔

Tuesday, September 8, 2015

چوری میرا پیشہ ہے ، نماز میرا فرض

مقام: پاکستان
تاریخ: چھ ستمبر 2015
وقت: رات دس بجے تقریباً

اے آر وائی زندگی: بھارتی کامیڈی پروگرام
اے آر وائی نیوز: یوم دفاع کی خصوصی تقریب جی ایچ کیو سے براہ راست

جیو کہانی: بھارتی سوپ سیریل
جیو نیوز: یوم دفاع کی خصوصی تقریب جی ایچ کیو سے براہ راست

ایکسپریس اینٹرٹینمنٹ: بھارتی ڈرامہ
ایکسپریس نیوز: یوم دفاع کی خصوصی تقریب جی ایچ کیو سے براہ راست

Bastards 

Sunday, September 6, 2015

Syria: Refugee Crisis

I am sure when God will ask Shah Salman of KSA, why you did not help your Muslim brethren in Need.

He will present the Highest Clock Tower in front of him and tell him "My Lord I was busy extending Haramain Ashareefain".