آج کل سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف ایک طوفان برپا ہے۔ مذہبی رحجان رکھنے والی سیاسی پارٹیاں اور ان سے متاثر افراد دھڑا دھڑ جینڈر ایکٹ کے خلاف پوسٹیں کر رہے ہیں لہذہ میں نے ضروری سمجھا کہ میں پہلے ٹرانس جینڈرایکٹ کو پڑھ ڈالوں کہ ایسا اس میں کیا ہے جس پر اتنا شور و غوغا ہے۔ جماعت اسلامی اس ایکٹ میں ترمیم کی خواہاں ہے۔ اس پوسٹ کے آخر میں اس ایکٹ کا اردو میں خلاصہ بھی دیا گیا ہے ساتھ کمنٹ میں لنک بھی ہے جو چاہے وہ جا کر قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے اس ایکٹ کا پورا متن ڈاونلوڈ کر کے خود پڑھ سکتا ہے۔
Out Spoken
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے / بے سبب ہوا غالب دشمن آسمان اپنا
Monday, September 19, 2022
ٹرانس جینڈر [پروٹیکشن آف رائٹس] ایکٹ 2018 : قانون اور اعتراضات
نوٹ: یہ مضمون ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حق میں ہے، آپ اگر آنکھیں بند کرکے مخالفت کرنے کے عادی ہیں تو نہ ہی پڑھیں
Wednesday, November 25, 2020
ہم اور ہماری عزت
جانگلوس، اداس نسلیں اور نادار لوگ میں سیکس نارمز کا جائزہ
حال ہی میں اردو ادب کے تین شاہکار ناول جانگلوس، اداس نسلیں اور نادار لوگ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ پڑھ کر دل دہل گیا۔ فیض صاحب نے درست کہا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے یہ ملک کہیں یوں ہی نہ چلتا رہے۔ تینوں ناولز ہماری سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشی کرپشن کی مستند تاریخ ہوں جیسے۔ ستر پچھتر سال میں چہرے بدلے ہیں صرف اور کچھ نہیں بدلا۔ ناولز کی ادبی ساکھ پر تو بہت سے لکھاریوں نے بہت کچھ لکھا ہوگا اور ہماری یہ اوقات نہیں کہ ان ناولز کی ادبی حیثیت پر تبصرہ کرسکیں۔
لیکن ایک پہلو جس پر شاید اس سے پہلے کسی نے توجہ نہیں دی وہ ہے ان ناولز میں پیش کردہ سیکس نارمز ۔ اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ناولز باوجود فکشن ہونے کے ہمارے معاشرے کی نارمز یا معمولات کا ہی عکس ہوتے ہیں۔ گویا یہ روئیے کسی معاشرے میں اس دور میں موجود ہوتے ہیں جس دور میں یہ ناول لکھا گیا یہ جس دور کے بارے میں لکھا گیا تب ہی تو انہیں ناول یا افسانے میں عکس کیا جاتا ہے۔
Labels:
Behavior,
Ethics & Values,
Gender,
Hypocrisy,
Pakistan,
Society,
Sociograph
Thursday, October 1, 2020
تین مرد تین کہانیاں
آج تک ہم نے آپ کو ان حضرات کے اسکرین شاٹس دکھائے ہیں جو ہم سے دوستی کے خواہشمند ہیں لیکن ہم جو اپنے تئیں ایک مس ورلڈ ہیں انہیں لفٹ نہیں کرواتے۔ آج آپ کی ملاقات تین ایسے حضرات سے کرواتے ہیں جن کو ہم نے تھوڑی بہت لفٹ کروائی لیکن نتیجہ نکلا ڈھاک کے تین پات۔
ایک بھائی صاحب، حلیے سے جماعتی ٹائپ۔ بیگم نقاب میں ہوتی ہیں۔ دونوں ایک بک ریڈنگ فورم پر ہوتے ہیں۔ ہمیشہ پڑھی لکھی باتیں کرتے تھے، پڑھے لکھے کوٹ شئیر کرتے تھے۔ مزاح کا اچھا ذوق رکھتے تھے، مزے دار فقرے چست کرتے تھے ان سے اچھی بات چیت تھی ایک دن انہوں نے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی وہ شرموشرمی قبول کرنی پڑی کہ اتنی بات چیت ہے۔ اب جو ان کے کہیں کہیں سیاسی اور انٹرنیشنل پیجز پر کمنٹس نظر آنے شروع ہوئے۔ اتنے شرمناک قسم کے کہ اللہ کی پناہ۔
Tuesday, September 29, 2020
نہرو اور تاریخ - 2
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
تاریخ کبھی بھی ہمار فیورٹ موضوع نہیں رہا تاریخ سے ہماری دلچسپی صرف تاریخی مقامات ہڑپہ، موئنجوداڑو، ٹیکسلا، مہر گڑھ دیکھنے کی حد تک تھی۔ کہ کہیں ذکر آئے تو ہم کہہ سکیں کہ ہاں ہم نے بھی یہ مقامات دیکھے ہوئے ہیں۔ اور یہ پتا ہے کہ ان چاروں میں سے سب سے پرانا مہر گڑھ ہے۔ یا پھر قسمت نے موقع فراہم کر دیا کہ مصر جیسا تاریخی ملک دیکھنے کو مل گیا جس کی تاریخ بس اتنی پتا ہے کہ مصر کے عجائبات سات ہزار سال پرانے ہیں۔ لیکن مصر کی الگ الگ بادشاہتیں، فرعونوں کی ترتیب اور آپسی رشتہ داریاں کوئی پوچھ لے تو گوگل کرنا پڑجائے۔
Wednesday, August 5, 2020
نہرو اور تاریخ : ایک معاشقہ
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ھے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
جواہر لال نہرو ایک مصروف سیاستدان اور تحریک آزادی ہندوستان کے ایک سرگرم لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شفیق اور محبت کرنے والے باپ بھی تھے۔ انہوں نے اپنی تمام سیاسی مصروفیات کے باوجود بشمول جیل کاٹنے کے باوجود بھی اپنی اکلوتی بیٹی اندرا کی تعلیم اور تربیت سے صرف نظر نہیں کیا۔ اور اندرا کی دسویں سالگرہ سے انہیں خط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو کئی سال جاری رہا۔ ان خطوط میں نہرو نے کائنات، زمین، زمین پر حیات اور زمین پرانسان اور پھر قوموں کی تاریخ کے بارے میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا۔
Saturday, July 18, 2020
عمر چچا: پارٹنر ان کرائم
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا تھا عمر چچا ہمارے گھر کا ایک فرد تھے۔ گو کہ ان کا گھر ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا لیکن ہر کام کے لیے ہر وقت وہ ہمارے گھر حاضر رہتے۔ ابو سے عمر میں چھوٹے تھے اور انہیں ہمیشہ بھائی جان کہہ کر بلاتے تھے۔ اسی نسبت سے ہم بہن بھائی انہیں عمرچچا کہتے تھے۔
ہمارا بچپن ان کے کندھے سے لٹک کر ضدیں کرتے گزرا۔ اپنے سگے چچا سے بھی ہم نے اتنی فرمائیشیں نہیں کی ہونگی جتنی عمر چچا نے پوری کی ہونگی۔ یہ جو ہم اتنی ساری جگہوں کی تصاویر لگا رہے ہیں گورکھ رنگ تھیم میں۔ ان سب آوارگیوں کی شروعات عمر چچا کے ساتھ ہی ہوئی تھیں۔ سیر و تفریح کی جو اولین یادداشتیں ہیں ان میں سب سے پہلی تو ابو کی ففٹی کی ڈگی میں بیٹھ کر کیماڑی کی سیر کی ہے۔ اس کے بعد جتنی بھی ابتدائی فیملی پکنکس یاد ہیں۔ عمر چچا ان میں ایک ناگزیر پارٹنر ہوتے تھے۔
Labels:
Biograph,
Travelogue
Thursday, May 28, 2020
ابھی تو میں جوان ہوں
ہم پاکستان کی سب سے اونچی جھیل رش لیک کا ٹریک کر کے آئے، ہمارے ساتھ ایک بارہ سال کا بچہ اور دو خواتین 60 سال سے اوپر بھی تھیں اور ہم بہت فخر سے ان تینوں کو ہر فورم پر پیش کرتے تھے کہ یہ تینوں ہمارے اسٹار ٹریکرز ہیں۔ یاد رہے کہ رش لیک ٹریک پاکستان کے شمال میں مشکل ترین ٹریکس میں سے ایک ہے، اور اتنا مشکل تو ہے کہ ابھی تک مستنصر حسین تارڑ اس جھیل تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ لہذہ یہ ہمارے لیے بڑے ہی اعزاز کی بات تھی کہ ہماری ٹیم میں اتنا ینگ بچہ اور سکسٹی پلس خواتین اتنی فٹ تھیں کہ انہوں نے یہ ٹریک کر لیا۔ ہماری ٹریک لیڈر نے کسی فورم پر ان تینوں کے بارے میں تعارفی اور تعریفی پوسٹ لگائی، اینڈ بینگ 💣 ۔۔ یہ کیا ۔ ان میں سے ایک خاتون خفا ہوگئیں آپ نے میری عمر 63 لکھ دی جبکہ میں ابھی 62 کی ہوں 😂
Subscribe to:
Posts (Atom)