Showing posts with label Sociograph. Show all posts
Showing posts with label Sociograph. Show all posts

Friday, May 29, 2015

بجٹ کی بہاریں

پہلے تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہو کیا رہا ہے ۔ آخر شہر اس قدر تیزی سے کیونکر ترقی کر رہا ہے ۔ بھلا یہ کوئی انصاف ہے کہ جن رولر کوسٹر رائیڈز کو انجوائے کرنے کے شوق اور امید میں ہم ہر صبح گھرسے دفترعازم سفر ہوتے تھے ظالموں نے انہیں اچانک خاک نشیں کر دیا تھا۔ سڑکوں پر کھدے نقش و نگار جن کے درمیان ہم زگ زیگ ڈرائیونگ کی پریکٹس کیا کرتے تھے ان پر نئی قالین کاری کر دی گئی۔ اب کوئی بتائے کہ

محبت ہو گئی جن کو وہ دیوانے کہاں جائیں
مطلب ۔۔ اپنا ناشتہ ہضم کرنے :P

Sunday, May 24, 2015

لاہور ای لاہور اے :P

آجکل زمبابوے کی کرکٹ ٹیم اسلامی جمہوریہ پنجاب کے دورے پر ہے .. ٹیم صرف لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہی سارے میں سارے میچ کھیل کر واپس اپنے ملک روانہ ہو جائے گی.
اس سے پہلے چین کے صدر اسلامی جمہوریہ پنجاب کے دورے پر تھے جس کا دارالحکومت لاہور ہے .جس کے بارے میں پہلے مشہور تھا لہور لہور ہے ... اب کہتے ہیں 

لاہور ہی لاہور ہے

بس :P

پی ایس: نواز شریف کی یہ ریکارڈ ہے کہ یہ کسی بین الاقوامی مہمان کو کراچی نہیں آنے دیتا بھلے یہاں قائد اعظم ہوں۔ انکا اتنا ہی کام تھا کہ وہ مسلم لیگ چھوڑ جائیں اور یہ اس کے انڈے بچے سہتے رہیں ۔

Thursday, May 7, 2015

غریبی کے سائیڈ ایفیکٹس بلکہ آفٹر شاکس

عمرانیات کی کلاس میں استاد نے کلچر پڑھاتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا کہ کلچر آف پاورٹی، پاورٹی آف کلچر میں تبدیل ہوجا تا ہے۔ یہ جملہ اس وقت تو یاد کر لیا تھا کہ امتحانی کاپی میں لکھ کر استاد کو متاثر کرنے کے کام آئے گا کہ ہم کتنے فرمانبردار شاگرد ہیں ، استاد کا کہا کتنا یاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا تو اس جملے کا مطلب صحیح سے سمجھ آیا ہے، گویا بال جھڑنے کے بعد کنگھی مل گئی ہے۔

جب آپ نے ایک عمر غریبی میں گزاری ہو تو غریبی کا کلچر اور مائنڈ سیٹ آپکے لہو میں سرائیت کر جاتا ہے، آپ ہمیشہ ہر شے کو اسی آئینے میں دیکھتے ہیں۔ غریبی خاص کر غریب بچپن آپ میں کچھ مخصوص اور مزیدار عادتوں کا باعث بنتا ہے۔

Wednesday, April 29, 2015

کراچی کی ٹریفک: ہوکے اور کچیچیاں

کچھ گاڑیاں سڑک پر ایسے چل رہی ہوتی ہیں جیسے ان کو ابھی ابھی "مسلمان" کیا گیا ہو یا پھر ان کو چلانے والوں کے ساتھ یہ حادثہ ابھی تازہ ہو۔ نہ خود چلیں گے نہ آپ کو راستہ دیں گے۔

موٹر بائیک کا ہارن عموماً ایکسلریٹر المعروف ریس کے ساتھ لگا ہوتا ہے، جتنی زیادہ رفتار اتنا ہی زیادہ اور مسلسل ہارن بجے گا۔ ایک موٹر بائیک پر پانچ لڑکے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے چپک کر بیٹھے ہونگے جیسے فیکٹری سے ایک ساتھ ایک پزل کے ٹکڑوں کی طرح پیک ہو کر آئے ہوں۔ کھول لیں اور پھر سے جوڑ دیں تو ہر جوڑ اپنے سانچے میں فٹ ہو جائے گا۔ مزے کی بات ایسی بائیک چلانے والوں کو ٹنکی پر بیٹھ کر بائیک چلانے کی ایسی عادت پڑتی ہے کہ اکیلے بھی بائیک چلا رہے ہونگے تب بھی ٹنکی پر چڑھ کرہی چلائیں گے۔

Tuesday, December 30, 2014

نوبل پرائز کا حقدار کون

ایک طرف صحنتمد ملالہ ہے ۔ جس کے والدین سر پر سایہ فگن ہیں، جس کے والد کا اپنا اسکول تھا۔ اور وہ والدین کے سائے میں تعلیم کے لیے کوشاں تھی /ہے۔ جس کے ساتھ ساری دنیا کی مدد شامل ہے۔ 

دوسری طرف تھرپارکر کی پولیو زدہ آسو کوہلی ہے، یتیم اور معذور۔ نہ پیسہ ہے نہ وسائل نا کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا۔ ایک وقت کھانے کو ہے تو دوسرے وقت کا نہیں پتہ۔ لیکن خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے گاوں کے دیگر بچوں کو بھی تعلیم دے رہی ہے ۔ صرف اور صرف اپنے زور بازو پر ۔

----------------------------

پی ۔ ایس: یہاں ملالہ کے صحیح یا غلط کا سوال نہیں ہے۔ وہ ایک علیحدہ بحث ہے

Sunday, October 26, 2014

جس تن لاگے وہ تن جانے

ایک" اہل زبان" سیاسی پارٹی کے لمبی زبان والے سیاستدان فرماتے ہیں کہ اگر آج ان کو الگ صوبہ دے دیا جائے تو کل کو افغان مہاجرین بھی صوبہ مانگنے لگیں گے۔ ۔۔ توہمارا اسٹیٹس اس ملک میں افغان مہاجرین کے برابر ہے. یا شاید ان سے بھی کم تر .. انہیں تو اس ملک میں پناہ دی گئی تھی ، مہمان نوازی کی گئی تھی اور ہمارے اجداد تو بنا بلائے ہی چلے آئے تھے ... یہ سوچ کر کہ کیا ہوا جو ان کا علاقہ پاکستان میں شامل نہیں ... وہ تو پاکستان بنانے میں شامل تھے نا ....

Saturday, October 25, 2014

نوحہ گرانِ ماضی

بحثیت قوم ہماری عادات کہن میں سے ایک عادت ہر قسم کے شاندار ماضی کی نوحہ گری بھی ہے ..

کوئی مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کی نوحہ گری میں مصروف ہے جب اسلامی خلافت یا سلطنت کی حدیں کہاں سے کہاں تک تھیں تو کوئی آج یورپ و افریقہ کی علمی ترقی کو مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات کا آئینہ دکھا رہا ہے کہ تم کیا بیچتے ہو یہ تو ہم تھے جس نے تمہیں سوداگری کی الف بے سکھائی.

Wednesday, October 22, 2014

حاصل ملاقات: لاہور سے یارقند @ کراچی 19 اکتوبر 2014

ہم جیسے غریب غربا ایک تو خود کو بہت کمتر اورنااہل سمجھتے ہیں .. دوسرا سلیبریٹیز سے بہت مرعوب ہوتے ہیں اور چاہے انکو کتنا بھی پسند کریں اگر وہ سامنے بھی ہوں تو ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر پاتے, بات کرنا تو اس کے بعد کی بات ہے .. اور فون کرنا اور فون پر بات کرنا تو ناممکنات میں گنتے ہیں.
قبل از یوم گزشتہ ہمارا بھی یہی حال تھا. ہم سمیرہ سے کئی بار یہ گوش گزار کر چکے تھے کہ بھئی سلیبز سے دور کی دعا سلام اچھی .. اور پہلی بار ہم لاہور چاچا جی سے ملنے کے شوق میں کم اور سمیرا سے ملنے کے شوق میں زیادہ گئے تھے.
ہم چاچا جی سے بھی دور دور کی دعا سلام کے حق میں تھے ... پہلی بار جب سمیرا نے چاچا جی سے فون پر بات کروائی تھی تو گھبراہٹ میں کچھ الفاظ حلق میں ہی قیام پذیر ہوگئے اور جو باہر آئے وہ اپنی ترتیب بھول گئے بعد والے لائن توڑ کر آگے آگئے اور آگے والے منہ دیکھتے رہ گئے ان کی باری آئی تو چراغوں میں روشنی نہ رہی. اور کچھ الفاظ تو دوبارہ بھی باری لینے لگ گئے.

Thursday, August 14, 2014

RIP Rationality

ترقی پذیر قوم ہونے کےناتے ہم جذباتیت پر یقین رکھتے ہیں اور ریشنالٹی یا ریشنلزم کا گزر ہمارے قریب سے نہیں ہوتا, اس جذباتیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اختلاف رائے کو دشمنی کا درجہ دیتےہیں اورہم خیالی دوستی اور اپنائیت قرار پاتی ہے.ہم میں سے ہر ایک کی دنیا میں یا تو فرشتے ہوتے ہیں یعنی اپنے جو ہر غلطی سے مبرا ہوتے ہیں یا پھر شیاطین جن میں کوئی خوبی ہو ہی نہیں سکتی. بس ہمارے دوستوں اور دشمنوں میں حضرت انسان کی کمی ہمیشہ رہتی ہے جو خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے۔۔

طفل مکتب

فاطمہ پورے گھر کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے, وہ چاہتی ہے کہ جیسا وہ کہے جیسا وہ چاہے سب ویسا ہی کریں. اگر نہ کریں تو ناراض ہوجاتی ہے, خوب غصہ کرتی ہے. کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ اسکی یہ کائنات(گھر) صرف اور صرف اسکے لئے تخلیق کی گئی ہے. اسکی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لئے. اسکے گرد گردش کرنے کے لئے. جب اسکی یہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ناراضگی اور تلخی کا اظہار کرتی ہے.

ہم سب میں ایک فاطمہ پوشیدہ ہے, ایک ساڑھے تین سال کا بچہ. کسی نہ کسی حد تک ہم میں سے ہر ایک اسی گمان میں رہتا ہے کہ یہ دنیا اور اسکے اسباب بس میرے ہی لئے تخلیق کئے گئے ہیں. لہذہ ہر کام میری مرضی کے مطابق ہونا چاہئے, ہر شخص کو میری توقعات پر پورا اترنا چاہئے. لیکن اکثر و بیشتر ایسا ہوتا نہیں ہے, نتیجہ ہر شخص اپنی ٹوٹی ہوئی امیدوں کا غصہ اپنے ارد گرد ہر شخص پر نکال رہا ہوتا ہے. گویا ارتقاء کی سیڑھی پر ہم ابھی تک طفل نادان  ہی ہیں

Tuesday, July 29, 2014

بھائی لوگ :P

"نسرین تم باقی سب کی طرح مجھے بھائی کیوں نہیں کہتیں؟"

"کیونکہ آپ سے بات کرنے کے لئے مجھے آپ کو بھائی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بطور ایک انسان بھی آپ سے بات کرسکتی ہوں۔ میں آپکو بھائی کیوں کہوں، مجھے اپنی نیت پر اعتبار نہیں یا آپکی "

یہ اس گفتگو کا نچوڑ ہے جو فیس بک پر تقریباً دوسال گپیں لگانے کے بعد ہو رہی تھی۔ ہماری دوستی کے حلقے میں شامل تقریباً تمام افراد بلا تفریق ان کے نام کے ساتھ بھائی لگا کر پکارتے ہیں لیکن میں ہمیشہ انکا نام لیتی ہوں۔ انکا کہنا بھی ایسا غلط نہیں تھا ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں صنفی تقسیم بہت گہری ہے۔ مرد و عورت کو زبردستی اور مصنوعی طور پر الگ الگ شیلفوں میں سجایا ہوا ہے۔

Monday, July 21, 2014

مقاصد اور ذرایع

زندگی میں کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور کچھ اشیاء ان کے حصول کا وسیلہ یا ذریعہ۔ خرابی جب پیدا ہوتی ہے جب ہم ان وسائل یا ذرائع کو ہی اپنا مطلوب و مقصد بنا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس۔ لباس ایک ذریعہ ہے جسم کی موسمی شدت اور تبدیلیوں سے حفاظت اور آرام دینے کے لیے۔ مقصد نہیں۔ لیکن ہم نے لباس کو اپنا مقصد بنا لیا ہے، لباس کیسا ہو، کس ڈیزائنر کا ہو، کتنا مہنگا ہو، ہم نے جسم کی حفاظت اور آرام کے بجائے لباس کو مطلوب و مقصود مومن بنا ڈالا۔ 

Friday, June 27, 2014

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا کیجئے غور

ہم ایک ایسی قوم ہیں جسے چھوٹے بچوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں. گذشتہ دو روز میں جتنے لوگ بھی محمد حسن غوری کو دیکھنے اور مبارکباد دینے آئے ہیں, سب نے بلا امتیاز فاطمہ سے یہ ضرور کہا ہے کہ " تمہارے منے/ بھائی کو ہم لے جائیں"

آپ کسی بچے سے اس کا من پسند کھلونا چھیننے کی دھمکی دے کر اس سے دوستی کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں.

Monday, May 26, 2014

کراچی ٹریفکنگ

محکمہ ٹریفک انجینئرنگ بیورو اور کراچی ٹریفک پولیس کو چاہئے کہ وہ کراچی کی سڑکوں کی ایک لین رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کے لئے باقاعدہ مخصوص کر کے رائٹ سائیڈ ڈرائیونگ کرنے والے حضرات کی دعاوں سے مستفید ہوں۔ بے اصولی کو اصول بنا دیں تاکہ لوگ مزید بے اصولی کرکے اصل اصول کی جانب لوٹ آئیں۔

تمہاری بے رخی اک دن ہماری جان لے لے گی

کیا واقعی۔۔ زندگی میں شاید کوئی ایک رشتہ یا ایک شخص ایسا ہو جس کے لیے یہ بات فٹ بیٹھتی ہو۔ ورنہ زیادہ تر لوگ تو آپ کو محبت کر کر کے مار ڈالتے ہیں۔

آپ کی پیدائش کے فوراً بعد آپ کے والدین، دادا ، دادی، نانا ، نانی اور ارد گرد کے سارے رشتے دار آپ کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو ہیجڑے نے اپنے نومولود کے ساتھ کیا تھا۔ جی ہاں محبت میں آکر آپ کو اتنا چوما ،چاٹا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔

ایک تو آپ پہلے ہی ایک انتہائی پرسکون، تقریباً ساونڈ پروف، نمی نمی چھاں والی نرم گرم دنیا سے ایک تقریباً نقارخانے میں ڈائریکٹ لینڈ کرنے پر حواس باختہ ہوتے ہیں۔ تیز روشنی، تیز ترین آوازیں جو آپ کے کان میں سوراخ کرنے کے درپے ہیں۔، گرمی میں آپکو ایک گرم کمبل میں لپیٹ دیا گیا ہے، اور آپ احتجاجاً ہسپتال کے باہر موجود رکشے کی آوازوں سے مقابلے پر اترے ہوئے ہیں۔ اس گہما گہمی میں پر شخص آپ کو 92 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی ٹرافی کی طرح اچکنے کو تیار ہے، ہر شخص پر فرض کردیا گیا ہے کہ وہ آپکو چٹاخ پٹاخ پیار ضرور کرے، خواہ آپکو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گذرے۔

Tuesday, May 20, 2014

نیوز چینلز

گزشتہ دھائی کے دوران پاکستان کی سرحدوں کے اندر اور باہر پاکستانی نژاد الیکٹرونک میڈیا نےدن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے۔ سو کے لگ بھگ نئے ٹی وی چینل کھل گئے ہیں جو اردو اور علاقائی زبانوں میں ہفتے کے ساتوں دن، دن کے چوبیس گھنٹے عوام کو تفریح ، خبریں اور تجز یئےفراہم کر رہے ہیں۔اس وقت تمام پاکستانی نیوز چینلز ریٹنگ کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں لگے ہیں۔

نیوز چینلز کا سب سے مقبول آئٹم بریکنگ نیوز ہے۔ آجکل ہر خبر بریکنگ نیوز ہوتی ہے۔ چینل پہ چینل بدلتے جائیں لیکن اسکرین پر سرخ رنگ میں بریکنگ نیوز اس تسلسل سے نظرآتی رہیں گی کہ لگتا ہے ٹی وی اسکرین بھی بریک ہوجائے گی۔ بھلا کوئی پوچھے کہ ایک شخص جس کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے, وہ عدالت میں پیش ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اور اسکی پچھلی غیر حاضریوں کی مثال کو سامنے رکھتےہوئے غالب امکان یہی ہے کہ وکیل آگے کی تاریخ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب بھلا اس سارے قصے میں کیا نیا پن ہے جو بریک ہونے سے رہ گیا ہے۔

Thursday, April 10, 2014

مڈل کلاس شریف لڑکیاں

مڈل کلاس شریف لڑکیوں کا المیہ یہ ہے کہ لڑکوں کی بہ نسبت یہ پڑھ لکھ جاتی ہیں۔کچھ تعداد ان میں سے جاب بھی کرلیتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں یہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے تھوڑا بلندہو جاتی ہیں۔ جس کے اپنے الگ سے نقصانات ہیں۔

ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی اور ملازمت پیشہ لڑکیوں کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہ بہت تیز ہوتی ہیں۔ لڑکے پٹا لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے, یہ اپنی مرضی کرتی ہیں, یہ گھر نہیں بسا سکتیں۔ یہ مفروضے کم پڑھی لکھی اور گھریلو خواتین کے جانبدارانہ خیالات پر مشتمل ہوتے ہیں, جو ہمارے معاشرے میں اکثریت میں ہیں, سو جمہوریت یہی ہے کہ اکثریت ہی صحیح کہتی ہے۔

Wednesday, October 2, 2013

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔ تصویر کا دوسرا رخ

میں کبھی کبھار شام کے اوقات میں اپنی بھتیجی کو ایک پارک میں لے جاتی ہوں۔ وہاں 14، 15، 16 سال کی بچیاں ٹیوشن سینٹرز یا کوچنگ سے واپسی پر کتابیں بغل میں دبائے چور نظروں سے ادھر ادھر تکتی ہوئی کسی کونے والی بنچ کا انتخاب کرتی ہیں جہاں پہلے ہی کوئی بانکا چھبیلا انکا انتظار کر رہا ہوتا ہے یا وہ موبائل پر اطلاع ملتے ہی آجاتا ہے۔ موبائل فون نے ان بچیوں کو چور راستے تو دکھا دیے ہیں لیکن دنیا میں کس کس قسم کے دھوکے ہیں اس سے ناواقف یہ قطعی غیر معصوم بچیاں کچھ شرماتی لجاتی اپنے بوائے فرینڈ سے چپک کر بیٹھی نئے نئے افئیر کے نشے میں جھوم رہی ہوتی ہیں۔

پھر جب کسی 14/15 سال کی بچی کی روندی ہوئی لاش کسی گلی کوچے یا ساحلِ سمندر سے برآمد ہوتی ہے، تو انکا وہی گھاگ بوائے فرینڈ گرفتاری کے بعد کہتا ہے کہ ہماری تو کئی سال سے دوستی تھی اور ہم پہلے بھی تنہائی میں ملتے رہے ہیں۔ والدین لاکھ دہائی دیں انکی بچی "معصوم تھی" پارکوں کا شام کا منظر گواہی دیتا ہے، کہ "بچی" ہرگز معصوم نہیں تھی۔ وہ تو شاید "بچی" بھی نہیں تھی۔ 

کیا برا ہے اگر بیٹیوں کے پیدا ہونے پر بین ڈالے جاتے ہیں؟ کیا برا تھا کہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ کہ ایک دن ان کی وجہ سے والدین کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے ، پہلا رخ 

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔

میری ایک پھول سی بھتیجی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اسے یہ کیسے سمجھاوں کہ بیٹا آپ نے اپنے کسی چچا یا ماموں یا انکل یا آنٹی کے ساتھ کہیں اکیلے نہیں جانا۔ اس کے سوال اتنے ہوتے ہیں، ختم ہی نہیں ہوتے، میں اسے ریپ کیا ہوتا ہے، جنسی زیادتی کیا ہوتی ہے، قتل کیا ہوتا ہے، نہیں سمجھا سکتی۔ ایک تو اسکی عمر میں اسے یہ سارے تصورات سمجھ نہیں آسکتے۔ اور جس دن سمجھ آگئے، اس دن کے بعد سے کیا وہ اس دنیا میں کسی پر بھی اعتبار کر سکے گی، نہیں نا۔ تو پھر اسکی شخصیت میں ہمیشہ کمی رہے گی، وہ ہمیشہ ایک خوف میں مبتلا رہے گی، کبھی کھل کر ہنس بول نہ سکے گی، کبھی آزادانہ نقل و حرکت نہ کرسکے گی، ایک عمر قید میں زندگی بسر کرے گی۔کبھی ایک صحتمند زندگی بسر نہیں کر سکے گی۔ 

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس کی زندگی تباہ ہونے سے پہلے، اسکا پھول سا جسم نوچے بغیر ہم اسے عزت و احترام سے زندہ دفن کردیں۔
-----------------------

Saturday, September 21, 2013

ترقی پسندی

ترقی پسندی بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہی ہے اگر اس میں دوسروں کی رائے کا احترام نہ ہو، ایک طرف لوگ مّلا کی شامت لے آتے ہیں کہ وہ اسلام کی غلط تشریح کرتا ہے، اسکی سوچ محدود ہے، دوسری جانب ملا کہتا ہے، خبر دار میں اسلام کا ٹھیکدار ہوں مجھے تم سے زیادہ اسلام پتہ ہے، خبردار مجھ سے پوچھے بغیر ایک لفظ کا مطلب بھی خود سے سمجھنے کی کوشش کی، تیسری جانب اگر کوئی خود سے بڑھ کر نیک نیتی سے یہ جاننا چاہے کہ آخر مذہب ہے کیا، کتاب میں کیا لکھا ہے، تو ترقی پسند انتہا پسند اتنی شدت سے اسکا مضحکہ اڑاتے ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ جائے،۔

سوال یہ ہے کہ یہ ترقی پسند انتہا پسندی جان بوجھ کر ملا کی پوزیشن مضبوط کر رہی ہے، یا نا سمجھی میں؟