Thursday, August 14, 2014

طفل مکتب

فاطمہ پورے گھر کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے, وہ چاہتی ہے کہ جیسا وہ کہے جیسا وہ چاہے سب ویسا ہی کریں. اگر نہ کریں تو ناراض ہوجاتی ہے, خوب غصہ کرتی ہے. کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ اسکی یہ کائنات(گھر) صرف اور صرف اسکے لئے تخلیق کی گئی ہے. اسکی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لئے. اسکے گرد گردش کرنے کے لئے. جب اسکی یہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ناراضگی اور تلخی کا اظہار کرتی ہے.

ہم سب میں ایک فاطمہ پوشیدہ ہے, ایک ساڑھے تین سال کا بچہ. کسی نہ کسی حد تک ہم میں سے ہر ایک اسی گمان میں رہتا ہے کہ یہ دنیا اور اسکے اسباب بس میرے ہی لئے تخلیق کئے گئے ہیں. لہذہ ہر کام میری مرضی کے مطابق ہونا چاہئے, ہر شخص کو میری توقعات پر پورا اترنا چاہئے. لیکن اکثر و بیشتر ایسا ہوتا نہیں ہے, نتیجہ ہر شخص اپنی ٹوٹی ہوئی امیدوں کا غصہ اپنے ارد گرد ہر شخص پر نکال رہا ہوتا ہے. گویا ارتقاء کی سیڑھی پر ہم ابھی تک طفل نادان  ہی ہیں

Saturday, August 9, 2014

فرمائشی سفرنامہ: پارٹ تھری

رما موٹیل میں ہی جانے کتنے دنوں کے بعد ٹی وی اور خبریں دیکھنا نصیب ہوئیں اور یہ پتہ چلا کہ مذاق رات ختم ہوگئے ہیں اور اب آپریشن کلین اپ ہونے والا ہے نواز شریف قوم سے خطاب کر رہے تھے ۔ یہاں جیو تیز کی شکل بھی نظر آئی۔ آنکھوں میں ٹھنڈ پڑ گئی۔
دی کلر ماونٹین۔ قراقرم ہائی وے

قراقرم ہائی وے پر جہاں نانگا پربت کلر ماونٹین آپکے لیفٹ پر کا بورڈ لگا ہے ، اسکے بلکل سامنے سڑک کے اس پار ایک ننھا منا سا ریسٹورینٹ ہے جہاں مسافروں کی تواضع کھانے پانی کے علاوہ مفت شہتوت سے کی جاتی ہے۔ چند دکانوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ جس کے درمیان میں ایک بڑا سا شہتوت کا درخت جو اس وقت پھلوں سے لدا ہوا تھا، اس ریسٹورینٹ کی ایک اور خاصیت، کھانے کے ساتھ اچار وافر مقدار میں دیا جاتا تھا۔ یہ وہ نعمت تھی جو ہم ساتھ لے جانا بھول گئے تھے۔ اور ہائیٹ کی وجہ سے جب کسی کا کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا تھا تو اچار کی یاد آتی تھی۔ شمال کے تقریباً تمام ریسٹورینٹس اور موٹیلز میں چکن کڑاہی ایک کامن ڈش ہے۔ دال اناج دستیاب نہ ہونے کا ریزن یہ ہے کہ اونچائی کی وجہ سے دال گلتی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ جہاں دال نہیں گلتی وہاں مرغی کیسے گل جاتی ہے۔ 

Wednesday, August 6, 2014

کمینگی کا تناسب اور آئینے


ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر کمینگی کا تناسب انتہائی درستگی سے معلوم ہوتا ہے,یہ الگ بات کہ ہم میں سے اکثریت اس کا خود سے بھی اقرار نہیں کرتی۔ ورنہ ضمیر کی اتنی مقدار اللہ تعالیٰ نے ہر ایک میں ضرور انسٹال کی ہے کہ وہ اس کو اپنی غلطی کا احساس دلا سکے۔ اب یہ ہر ایک کی اپنی استعداد ہے کہ وہ اس احساس کو کتنی دیر تک اور کتنا گہرا دفن رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے مزے دار بات یہ ہے کہ جو آئینے ہم ہروقت دوسروں کودکھانے کے لئے ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں ان آئینوں میں ہم اپنا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

Tuesday, July 29, 2014

بھائی لوگ :P

"نسرین تم باقی سب کی طرح مجھے بھائی کیوں نہیں کہتیں؟"

"کیونکہ آپ سے بات کرنے کے لئے مجھے آپ کو بھائی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بطور ایک انسان بھی آپ سے بات کرسکتی ہوں۔ میں آپکو بھائی کیوں کہوں، مجھے اپنی نیت پر اعتبار نہیں یا آپکی "

یہ اس گفتگو کا نچوڑ ہے جو فیس بک پر تقریباً دوسال گپیں لگانے کے بعد ہو رہی تھی۔ ہماری دوستی کے حلقے میں شامل تقریباً تمام افراد بلا تفریق ان کے نام کے ساتھ بھائی لگا کر پکارتے ہیں لیکن میں ہمیشہ انکا نام لیتی ہوں۔ انکا کہنا بھی ایسا غلط نہیں تھا ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں صنفی تقسیم بہت گہری ہے۔ مرد و عورت کو زبردستی اور مصنوعی طور پر الگ الگ شیلفوں میں سجایا ہوا ہے۔

Saturday, July 26, 2014

حرام یا ناپاک کیوں: ایک خیال

بہت ساری چیزیں اور عمل اللہ تعالیٰ نے حرام اور ناپاک قرار دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تو وہی جانے مگر عمومی طور پر وہ اشیاء جو انسانی صحت کے لیے نقصاندہ ہیں وہ ناپاک قرار دی گئی ہیں۔ جیسے خون ، فضلات، اور دیگر انسانی اخراجات میں جراثیم اور وائرس پائے جاتے ہیں لہذہ انہیں ناپاک قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اگر انسان کے جسم پر یا لباس پر لگا ہو تو وہ پاک نہیں رہتا، وضو کے بعد لگ جائے تو وضو ساقط ہو جاتا ہے، اسے فوری طور پر پاک ہونا لازمی ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد بظاہر یہی ہے کہ بندہ جراثیم اور وائرس وغیرہ سے بچا رہے۔

Monday, July 21, 2014

مقاصد اور ذرایع

زندگی میں کچھ مقاصد ہوتے ہیں اور کچھ اشیاء ان کے حصول کا وسیلہ یا ذریعہ۔ خرابی جب پیدا ہوتی ہے جب ہم ان وسائل یا ذرائع کو ہی اپنا مطلوب و مقصد بنا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس۔ لباس ایک ذریعہ ہے جسم کی موسمی شدت اور تبدیلیوں سے حفاظت اور آرام دینے کے لیے۔ مقصد نہیں۔ لیکن ہم نے لباس کو اپنا مقصد بنا لیا ہے، لباس کیسا ہو، کس ڈیزائنر کا ہو، کتنا مہنگا ہو، ہم نے جسم کی حفاظت اور آرام کے بجائے لباس کو مطلوب و مقصود مومن بنا ڈالا۔ 

Sunday, July 13, 2014

فرمائشی سفرنامہ: پارٹ ٹو

بیال کیمپ واپس پہنچ کر گروپ لیڈر نے چکن کڑاہی کھا کھا کر اک چکے لوگوں اور دانتوں کی تازہ دال چاول اور چشمے کے پانی سے تواضع کی۔ تھوڑے آرام اور کچھ خر مستیوں کے بعد واپسی کا قصد کیا۔ گائیڈ صاحب جانے ہمیں کن راہوں پر لے چلے۔ ان کے بقول اب شام ہو گئی تھی اور راہ راست یعنی اصل ٹریک پر موجود ندی نالوں کے ایمان بدعت کے باعث خراب ہو چکے تھے اور تابعین کو یقینی طور پر جہنم واصل کرنے کا باعث ہو سکتے تھے۔یہ آف ٹریک راہ نجات جنگلوں، ندی نالوں، چڑھائیوں، اور اترائیوں پر مشتمل تھی۔ تابعین کے صبر کا امتحان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی۔ راستے میں ایک دو مقامات واقعی ایمان کی مضبوطی کا باعث بنے۔ یہ اور بات کہ ان مقامات پر اندر کی سانس باہر اور باہر کی تو پہلے ہی باہر تھی۔ 
بیال کیمپ