Thursday, May 7, 2015

غریبی کے سائیڈ ایفیکٹس بلکہ آفٹر شاکس

عمرانیات کی کلاس میں استاد نے کلچر پڑھاتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا کہ کلچر آف پاورٹی، پاورٹی آف کلچر میں تبدیل ہوجا تا ہے۔ یہ جملہ اس وقت تو یاد کر لیا تھا کہ امتحانی کاپی میں لکھ کر استاد کو متاثر کرنے کے کام آئے گا کہ ہم کتنے فرمانبردار شاگرد ہیں ، استاد کا کہا کتنا یاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا تو اس جملے کا مطلب صحیح سے سمجھ آیا ہے، گویا بال جھڑنے کے بعد کنگھی مل گئی ہے۔

جب آپ نے ایک عمر غریبی میں گزاری ہو تو غریبی کا کلچر اور مائنڈ سیٹ آپکے لہو میں سرائیت کر جاتا ہے، آپ ہمیشہ ہر شے کو اسی آئینے میں دیکھتے ہیں۔ غریبی خاص کر غریب بچپن آپ میں کچھ مخصوص اور مزیدار عادتوں کا باعث بنتا ہے۔

Friday, May 1, 2015

Let’s have a Cup of Tea ..

چائے پینا ہماری روزمرہ عادات میں شامل ہے۔ جی ہاں ہم لوگ ضرورتاً نہیں عادتاً چائے پیتے ہیں۔ کوئی کام نہیں، فارغ بیٹھے ہیں، چلو ایک کپ چائے ہوجائے۔ کام زیادہ ہے، ہاں ابھی کرتے ہیں، پہلے چائے تو پی لیں۔ اف آج تو بہت کام کر لیا، اب ایک کپ چائے تو پی لیں۔

میرے لیے چائے پینا ہمیشہ سے ایک فالتو کام رہا ہے۔ یعنی چائے پینا بھی کوئی اہم کام ہے بھلا۔ لہذہ ہمیشہ چائے پیتے ہوئے دیگر کام میرے سر پر سوار رہے ہیں، کہ چائے ختم کر کے یہ کام کرنا ہے/کرنے ہیں۔ سو میں چائے ایسے پیتی ہوں کہ یہ کام جلد ی سے ختم ہو تو میں کوئی کام کا کام کروں۔

Wednesday, April 29, 2015

کراچی کی ٹریفک: ہوکے اور کچیچیاں

کچھ گاڑیاں سڑک پر ایسے چل رہی ہوتی ہیں جیسے ان کو ابھی ابھی "مسلمان" کیا گیا ہو یا پھر ان کو چلانے والوں کے ساتھ یہ حادثہ ابھی تازہ ہو۔ نہ خود چلیں گے نہ آپ کو راستہ دیں گے۔

موٹر بائیک کا ہارن عموماً ایکسلریٹر المعروف ریس کے ساتھ لگا ہوتا ہے، جتنی زیادہ رفتار اتنا ہی زیادہ اور مسلسل ہارن بجے گا۔ ایک موٹر بائیک پر پانچ لڑکے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے چپک کر بیٹھے ہونگے جیسے فیکٹری سے ایک ساتھ ایک پزل کے ٹکڑوں کی طرح پیک ہو کر آئے ہوں۔ کھول لیں اور پھر سے جوڑ دیں تو ہر جوڑ اپنے سانچے میں فٹ ہو جائے گا۔ مزے کی بات ایسی بائیک چلانے والوں کو ٹنکی پر بیٹھ کر بائیک چلانے کی ایسی عادت پڑتی ہے کہ اکیلے بھی بائیک چلا رہے ہونگے تب بھی ٹنکی پر چڑھ کرہی چلائیں گے۔

Sunday, April 12, 2015

قران و حدیث میں عورت کا مقام اور صنفی تفریق

ہم اپنے ہر خیال، عمل اور رویے کے لیے دلیلیں تلاش کرتے ہیں تو سب سے پہلے نہیں تو سب سے آخر میں قران و حدیث تک پہنچ جاتے ہیں۔ کہ ہمارا سب سے اہم حوالہ اللہ کا کلام اور اسکے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ عموماً قران اور حدیث میں سے ایک دو باتوں کا حوالہ دے کر خواتین کو مردوں سے کم تر اور کم عقل قرار دیا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھتی ہے۔ جسے عام زبان میں صنفی امتیاز یا صنفی تفریق کا نام دیا جاتا ہے۔ تو روز مرہ زندگی میں جن قرانی معلومات اور احادیث کو ہم دن رات دہراتے رہتے ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

Wednesday, March 11, 2015

وے میں چوری چوری

گزشتہ دنوں ٹھٹھہ سے کچھ فاصلے پر ور/ سخی داتار کی طرف جانا ہوا ... سخی داتار مزار کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب ہمیشہ چند مزارات قسم کی قبریں نظر آتیں . لیکن کبھی اس طرف جانا نہ ہوا, بس مزار پہ فاتحہ پڑھتے, ارد گرد بیٹھے خوانچہ فروشوں سے ونڈو شاپنگ کرتے اور ایک مہربان سے چائے پی کر واپس ہو جاتے ... اس بار میں طے کر کے گئی تھی کہ میں یہ قبریں دیکھ کر ہی آؤں گی .

سو مزار کی طرف جاتے ہوئے میں نے گاڑی رکوائی اور کیمرہ لے کر اتر گئی .. باقی پارٹی کو کہا کہ آپ جاؤ مزار پہ ..

Tuesday, January 20, 2015

An Open Letter to Editor Charlie Hebdo


چارلی ہیبڈو کے خاکوں کے پس منظر میں ایک ادنٰی سی کوشش۔
کسی قسم کی جذباتیت کو الگ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہولوکاسٹ سے بھی کنی کترا کے گزری ہوں کیوں کہ اگر کل کلاں  کو ہولاکاسٹ پر کھلے عام تنقید کا حق مل جائے تو کیا ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پرشادیانے بجائیں گے ، ہر گز نہیں ، تو ہولوکاسٹ ہمارا مسئلہ نہیں۔

بنیادی خیال یہ ہے کہ کسی کو قتل کردینے سے یا اپنی بسیں اور بنک جلانے سے یہ واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھیں گے۔ ہم مسلمانوں کو اپنی آواز اور اپنے جذبات ان اداروں تک طریقے سے پہنچانے چاہئیں جو مسلسل اس قسم کی حرکتیں کر رہیں ہیں۔ 

جو لوگ اس کو مغربی پریس کو ای میل کرنا چاہیں یا اپنی وال پہ پوسٹ کرنا چاہیں ، بسم اللہ [چارلی ہیبڈو کے ای میل کی تلاش میں ہوں، ویب سائیٹ حکومت آنٹی نے بند کر رکھی ہے]
ایک ہد ہد ایک قطرہ پانی سے آگ تو نہیں بجھا سکتا لیکن اسے آگ بجھانے والوں میں گنا جائے گا ،آگ لگانے اور بھڑکانے والوں میں نہیں :)



Mr. Editor,

Charlie Hebdo

Tuesday, December 30, 2014

نوبل پرائز کا حقدار کون

ایک طرف صحنتمد ملالہ ہے ۔ جس کے والدین سر پر سایہ فگن ہیں، جس کے والد کا اپنا اسکول تھا۔ اور وہ والدین کے سائے میں تعلیم کے لیے کوشاں تھی /ہے۔ جس کے ساتھ ساری دنیا کی مدد شامل ہے۔ 

دوسری طرف تھرپارکر کی پولیو زدہ آسو کوہلی ہے، یتیم اور معذور۔ نہ پیسہ ہے نہ وسائل نا کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا۔ ایک وقت کھانے کو ہے تو دوسرے وقت کا نہیں پتہ۔ لیکن خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے گاوں کے دیگر بچوں کو بھی تعلیم دے رہی ہے ۔ صرف اور صرف اپنے زور بازو پر ۔

----------------------------

پی ۔ ایس: یہاں ملالہ کے صحیح یا غلط کا سوال نہیں ہے۔ وہ ایک علیحدہ بحث ہے