Friday, November 15, 2013
Wednesday, October 23, 2013
چرنا آئی لینڈ
عید کی چھٹیوں میں انتہائی بور ہوکر خود کشی کے مختلف طریقوں پر غور فرمانے کے دوران ایک روح افزاء قسم کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ ہم ویک اینڈ پر کیماڑی سے چرنا آئی لینڈ جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں، سوچا آپ سے بھی پوچھ لیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ تھوڑے غورو فکر کے بعد ہم نے ہاں کر دی۔ جب ایک شریف آدمی آپکو صبح کے پانچ بجے تقریباً گھر سے پک اینڈ ڈراپ کی آفر کر رہا ہے تو آپ کے پاس انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ مزمل اینڈ کمپنی سے ہماری ملاقات قاہرہ میں ہوئی تھی۔ یہ ایک الگ داستان ہے، جو ہم پھر کسی وقت سنائیں گے۔
Labels:
Pakistan,
Travelogue
Tuesday, October 15, 2013
Born in A Wrong Gender ;)
میں غلط جینڈر میں پیدا ہوگئی ہوں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں لیکن اس کی سزا مجھے ہی ملتی ہے۔ میں اکثر یہ بات بھول بھی جاتی ہوں کہ میں ایک ختون ہوں، اور مجھے شرمانا لجانا، بل کھانا چاہئے۔ میری پسند نہ پسند اور حرکتیں سب مردوں والی ہیں۔ رف این ٹف کپڑے، مردانہ لک والی سینڈلز، میک اپ سے بے نیازی، جیولری سے الرجی، اور لہجہ تو اللہ کی پناہ اتنا کھردرا کہ اگلے کی دوبارہ بات کرنے کی ہمت نہ ہو۔ جب میں عید کی شاپنگ کے لیے بازار جاتی ہوں تومردانہ کرتے شلوار کی ورائیٹی پر میری ایسی رال ٹپکتی ہے کہ نہ پوچھو۔ بھلا بتاواتنا ڈیسینٹ کرتا شلوار خواتین کیوں نہیں پہن سکتیں؟
Wednesday, October 2, 2013
کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔ تصویر کا دوسرا رخ
میں کبھی کبھار شام کے اوقات میں اپنی بھتیجی کو ایک پارک میں لے جاتی ہوں۔ وہاں 14، 15، 16 سال کی بچیاں ٹیوشن سینٹرز یا کوچنگ سے واپسی پر کتابیں بغل میں دبائے چور نظروں سے ادھر ادھر تکتی ہوئی کسی کونے والی بنچ کا انتخاب کرتی ہیں جہاں پہلے ہی کوئی بانکا چھبیلا انکا انتظار کر رہا ہوتا ہے یا وہ موبائل پر اطلاع ملتے ہی آجاتا ہے۔ موبائل فون نے ان بچیوں کو چور راستے تو دکھا دیے ہیں لیکن دنیا میں کس کس قسم کے دھوکے ہیں اس سے ناواقف یہ قطعی غیر معصوم بچیاں کچھ شرماتی لجاتی اپنے بوائے فرینڈ سے چپک کر بیٹھی نئے نئے افئیر کے نشے میں جھوم رہی ہوتی ہیں۔
پھر جب کسی 14/15 سال کی بچی کی روندی ہوئی لاش کسی گلی کوچے یا ساحلِ سمندر سے برآمد ہوتی ہے، تو انکا وہی گھاگ بوائے فرینڈ گرفتاری کے بعد کہتا ہے کہ ہماری تو کئی سال سے دوستی تھی اور ہم پہلے بھی تنہائی میں ملتے رہے ہیں۔ والدین لاکھ دہائی دیں انکی بچی "معصوم تھی" پارکوں کا شام کا منظر گواہی دیتا ہے، کہ "بچی" ہرگز معصوم نہیں تھی۔ وہ تو شاید "بچی" بھی نہیں تھی۔
کیا برا ہے اگر بیٹیوں کے پیدا ہونے پر بین ڈالے جاتے ہیں؟ کیا برا تھا کہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ کہ ایک دن ان کی وجہ سے والدین کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔
کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے ، پہلا رخ
Labels:
Sociograph
کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔
میری ایک پھول سی بھتیجی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اسے یہ کیسے سمجھاوں کہ بیٹا آپ نے اپنے کسی چچا یا ماموں یا انکل یا آنٹی کے ساتھ کہیں اکیلے نہیں جانا۔ اس کے سوال اتنے ہوتے ہیں، ختم ہی نہیں ہوتے، میں اسے ریپ کیا ہوتا ہے، جنسی زیادتی کیا ہوتی ہے، قتل کیا ہوتا ہے، نہیں سمجھا سکتی۔ ایک تو اسکی عمر میں اسے یہ سارے تصورات سمجھ نہیں آسکتے۔ اور جس دن سمجھ آگئے، اس دن کے بعد سے کیا وہ اس دنیا میں کسی پر بھی اعتبار کر سکے گی، نہیں نا۔ تو پھر اسکی شخصیت میں ہمیشہ کمی رہے گی، وہ ہمیشہ ایک خوف میں مبتلا رہے گی، کبھی کھل کر ہنس بول نہ سکے گی، کبھی آزادانہ نقل و حرکت نہ کرسکے گی، ایک عمر قید میں زندگی بسر کرے گی۔کبھی ایک صحتمند زندگی بسر نہیں کر سکے گی۔
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس کی زندگی تباہ ہونے سے پہلے، اسکا پھول سا جسم نوچے بغیر ہم اسے عزت و احترام سے زندہ دفن کردیں۔
-----------------------
Labels:
Sociograph
اعتماد اور اعتبار
"منی پھو یہ فون نہیں لینا۔"
"اچھا بیٹے نہیں لوں گی۔"
پھر کسی کام سے اپنا فون اٹھا لیا جس میں فاطمہ گانے سن رہی تھی۔ اب کتنا ہی آپ دلیلیں دے لو کہ کیوں اٹھایا تھا، اس کا اعتبار واپس نہیں آنے والا، کسی بات پر دوبارہ یقین نہیں کرنا۔ اعتماد ایسے ہی ختم ہوتا ہے، اعتبار ایسے ہی ٹوٹتاہے۔
بڑوں کا اعتماد بھی ایسے ہی ٹوٹتا ہے، وہ بھی کبھی دوبارہ اعتبار نہیں کرتے، لیکن وہ منافقت کرتے ہیں، کبھی آپ کے منہ پر نہیں کہتے کہ آپ قابل اعتبار نہیں رہے۔
Saturday, September 28, 2013
واردات
ونس اپون اے ٹائم ہمارا دل ایک بندے پر آگیا تھا۔ ہم ٹھہرے سیدھے سادھے بندے، ہم نے زیادہ پریشانی سے بچنے کے لئے سیدھے سیدھے سارا معاملہ ان صاحب سے گوش گذار کر دیا۔ وہ بے چارے حیران ہوگئے۔ انھیں ہم سے ایسی امید ہر گز نہیں تھی۔ ہمیں کب خود سے ایسی کوئی امید تھی، ہم ان سے کم حیران نہیں تھے۔ وہ صاحب پہلے حیران ہوئے پھر شوخے ہو گئے اور اپنا فرمائشی پروگرام نشر کرنا شروع کردیا۔
انکی پہلی فرمائش یہ تھی کہ ہم ان کے ساتھ باہر کھانا کھائیں۔ ہائیں ، ، ، یعنی اگر ہمارا دل اپنی جگہ پر نہیں تھا تو انکا دماغ بھی کھسک گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ محترم یہ ڈیٹ ویٹ کی توقع تو تم ہم سے رکھنا بھی مت، ہمارا دل تم پہ آگیا ہے، برے توہم بھی تم کو نہیں لگتے، چلو شادی کرلیتے ہیں، پھر جو تم کہو۔
اس پر وہ مزید پھیلنے لگے، ایسی ایسی فرمائشیں جن کی ہمیں ان سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ لیکن ہمارا دل بے ایمان ہوا تھا، ہم تو اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم تھے۔ہم نے کوئی بھی فرمائش پوری کرنے سے صاف انکار کردیا۔
لو صاحب وہ تو انتقامی کاروائیوں پر اتر آئے۔ انہوں نے ہمارا فون اٹینڈ کرنا بند کردیا۔ ہمارے میسجز کا جواب دینا بند کردیا، ہمیں اپنی فیس بک، میسنجر اور نہ جانے کہاں کہاں سے نہ صرف بے دخل کردیا بلکہ بلاک بھی کردیا۔
آہ ہمارے درد و الم و رنج و صدمے کا عالم نہ پوچھیں، ہمیں انکے ساتھ مغز ماری کرنے کا جو نشہ تھا اسکے آفٹر ایفیکٹس بہت ہی خوفناک تھے۔ یقین مانیں دنیا میں جو سب سے خطرناک نشہ ہے وہ انسان کی صحبت کا نشہ ہے۔ ان سے رابطہ کٹ جانے پر ہمیں لگتا تھا کہ ہم فوت ہی ہوجائیں گے۔ سال بھر تو ہمیں نیند ہی نہیں آتی تھی اور آجائے تو اتنے خوفناک خواب آتے تھے کہ اس سے بہتر تھا کہ بندہ سوئے ہی نا۔ لیکن "وہ ہی نظر آتا ہے جب کوئی نظر نہیں آتا" کے مصداق اللہ میاں نے ہم کو مصر بھیج دیا۔ مصر میں بھی ہم اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے سیر و تفریح کرنے پاکستان چلے آتے تھے۔
اس وقت تو بس لگتا تھا کہ ہر سانس آخری سانس ہے، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہم نا صرف زندہ ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ خوش وخرم ہیں۔ وہ بھی یقیناً خوش ہونگے اپنے خرچے پر ]اب ہم انکی جاسوسی نہیں کرتے]۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں کوئی شریف آدمی بہت خوش ہے، کیونکہ ہم نے اب تک شادی نہیں کی۔ تو یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے انکار کر کے اپنے اور ہمارے دونوں کے حق میں بھلائی کی۔ اور آپ کے بھی، ورنہ آپ کو ایک اتنی اچھی رائٹر سے محروم ہونا پڑتا۔
اب اگر کبھی ہمارا کوئی دوست ہمیں اپنی فیس بک پر بین کرتا ہے،یا ہمارے کومنٹ ڈیلیٹ کرتا ہے یا ہمیں ڈیلیٹ ہی کردیتا ہے اپنی فرینڈز لسٹ سے تو ہم "سانو ں کی" کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہم انکے بغیر زندہ ہیں تو یقین رکھیے آپ کے بغیر بھی ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
Labels:
Biograph
Saturday, September 21, 2013
Qura'an: What is inside
آجکل میں مولانا مودودی کا اردو ترجمہ٫ قران بطور ایک کتاب پڑھ رہی ہوں۔ زیر نظر تبصرہ محض ایک ایسا ہی تبصرہ ہے جیسے ایک کتاب کو پڑھ کر اسکے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔
قران مجید کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی اس تمام جہان کا خالق ہے، وہی مقتدر ہےوہی تمام عبادتوں کا حقدار ہے۔ لہذہ صرف اور صرف اسکی بات سنی، مانی اور عمل کی جائے۔ اسکے بتائے ہوئے رستے پر چلا جائے، جو اسکے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا، کامیاب ہوگا، جو بغاوت کرے گا سزا کا مستحق ہوگا۔ ہر گناہ قابل معافی ہے، سوائے شرک کے۔
Labels:
Religion
ترقی پسندی
ترقی پسندی بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہی ہے اگر اس میں دوسروں کی رائے کا احترام نہ ہو، ایک طرف لوگ مّلا کی شامت لے آتے ہیں کہ وہ اسلام کی غلط تشریح کرتا ہے، اسکی سوچ محدود ہے، دوسری جانب ملا کہتا ہے، خبر دار میں اسلام کا ٹھیکدار ہوں مجھے تم سے زیادہ اسلام پتہ ہے، خبردار مجھ سے پوچھے بغیر ایک لفظ کا مطلب بھی خود سے سمجھنے کی کوشش کی، تیسری جانب اگر کوئی خود سے بڑھ کر نیک نیتی سے یہ جاننا چاہے کہ آخر مذہب ہے کیا، کتاب میں کیا لکھا ہے، تو ترقی پسند انتہا پسند اتنی شدت سے اسکا مضحکہ اڑاتے ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ جائے،۔
سوال یہ ہے کہ یہ ترقی پسند انتہا پسندی جان بوجھ کر ملا کی پوزیشن مضبوط کر رہی ہے، یا نا سمجھی میں؟
Labels:
Hypocrisy,
Sociograph
یہ نہ تھی ہماری قسمت
اس بار عید پر شوق چڑھا کہ عید کارڈ عید کارڈ کھیلا جائے اور بچپن کی یادوں کو تازہ کیا جائے، پورا پاپوش کا بازارکھنگال ڈالا، عید کارڈ ندارد۔ گھر کے قریب ایک اردو بازار ہے، وہاں ایک دکان پر دکھی پریم نگری، ناکام عاشقوں والے عید کارڈ دستیاب تھے، سوچا لے لوں مگر پھر خیال آیا کہ پہلے جس کو بھیجا جائے اسکا بندو بست کیا جائے، یعنی پہلے ایک مستقل سرکا درد تلاش کیا جائے پھر اسکو دکھی پریم نگری والا عید کارڈ بھیجا جائے، عید کارڈ تو سستا نسخہ ہے، لیکن جو اسکا پری ریکویزیٹ وہ بڑا مہنگا پڑے گا۔
لہذہ پروگرام کینسل
Labels:
Biograph
چیونٹے
آپ نے کبھی کسی مکوڑے/ چیونٹے پر ترس کھایا ہے، یعنی وہ آپ کے نزدیک یا آپ پر چڑھ آئے اور آپ اسے مارنے کے بجائے اس پر ترس کھا کر اسکی جان بخشی کر کے اسے پرے کر دیں، وہ چند سیکنڈز بعد بلکل اسی مقام پر ملے گا جہاں آپ نے اس پر ترس کھایا تھا، آپ دس بار رحم کریں وہ دس بار اسی مقام پر ملے گا۔ یقین مانیں میں نے مکوڑے سے زیادہ ضدی، اڑیل، اور دھن کا پکا کسی اور نوع کو نہیں پایا،
Labels:
Abstract
Tuesday, September 17, 2013
فیس بک فرینڈز
کسی عقلمند نے کہا تھا کہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاو"۔ گھبرائیے مت، ہم کچھ ایسا کہنے نہیں جارہے، ہم تو صرف آپ کو آپکی فیس بک میں ایڈ ڈ دوستوں کے بارے میں کچھ بتارہے ہیں۔ پہلے ہمارے دوست ہمارے کزنز وغیرہ، محلے دار یا اسکول کالج اور جائے ملازمت کے ساتھی ہوتے تھے۔ لیکن سوشل فورمز خاص کر فیس بک کی بدولت اب آپ کا تعارف بلکل اجنبی افراد سے بھی ہو تا ہے، نتیجۃً آپ کے حلقہء احباب میں بھانت بھانت کے لوگ شامل ہوگئے ہیں۔ ہم ان ہی سے تو آپ کا تعارف کروارہے ہیں۔ ڈرئیے مت، آگے پڑھئے۔
آپکے دوست:
یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی زندگی میں بھی آپکے دوستوں کے حلقے میں شامل ہوتے ہیں۔ لہذہ یہ گھر کے بھیدی ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پھوت پھات مارنے پر یقین رکھتے ہیں تو بہتر ہے انکے لیے ایک الگ پروفائل بنا لیں۔
سیکند فرینڈز:
[ سیکنڈ کزنز کی طرح] یہ آپکے دوستوں کے دوست ہوتے ہیں یا دوستوں کے بہن بھائی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان میں سے کچھ آپکے فرسٹ فرینڈز اور کچھ فاسٹ فرینڈز بن جاتے ہیں، جبکہ کچھ دوستوں کے حلقے سے خارج ہوجاتے ہیں۔
جڑواں فرینڈز:
فیس بک پر آپکی ملاقات کچھ ایسے لوگوں سے بھی ہوتی ہے، جن کو آپ کبھی پہلے نہیں ملے ہوتے، لیکن ان سے مل کر لگتا ہے کہ وہ آپکے جڑواں ہیں جو بچپن میں آپ سے بچھڑ گئے تھے۔ ان میں سے بعض کی آپ نے شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی، نہ کبھی آواز سنی ہوتی ہے۔ لیکن یہ خود بخود آپ کے چڈی بڈی ہو جاتے ہیں، وہ بھی اس عمر میں جب آپ چڈی پہننا ترک کر چکے ہوتے ہیں۔ ان کا ریڈیو بھی اسی فریکوئینسی پر سیٹ ہوتا ہے، جس پر آپکا ریڈیو نشریات پیش کرتا ہے۔
شوقین دوست:
شوقین فنکاروں کی طرح شوقین دوستوں کو بس آپ سے دوستی کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ان کی فرینڈز ریکویسٹ کنفرم ہونے کے بعد یہ ایسے منہ پھیرتے ہیں کہ دعا سلام بھی نہیں کرتے۔دعا سلام تو دور کی بات ہے ، شکریہ تک ادا نہیں کرتے۔ انھیں غالباً آپ کی پروفائل میں گھس بیٹھنا ہوتا ہے، جب یہ گھس بیٹھتے ہیں تو اسکے بعد ٹھنڈ پروگرام کرتے ہیں۔
اللہ واسطے کے دوست:
یہ دوست آپکی پروفائل میں ہر گز گھسنا نہیں چاہتےلیکن ہر اس فورم پر جہاں آپ اور وہ موجود ہوں آپ کی ہر پوسٹ پر کمنٹ اور ہر کمنٹ پر لائک کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آپ کے بارے میں اگر کوئی اختلافی رائے دے تو اس کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کے بھروسے آپ کسی کی بھی اور کہیں بھی، کسی پوسٹ پر کوئی "آگ لگاو" کمنٹ کرکے چین کی نیند سو سکتے ہیں، دوسرے دن مزیدار بریانی تیار ہوگی۔
آستین کے سانپ:
یہ وہ دوست نما دشمن ہیں جو آپکی ہر سنجیدہ پوسٹ پر "منہ چڑاو" کمنٹ اور مزاحیہ پوسٹ پر "دل جلاو" کمنٹ کریں گے، ہر معقول پوسٹ کی بھد پیٹ دیں گے، اور ہر فضول پوسٹ پر اپنی بقراطی جھاڑیں گے۔ اکثر و بیشتر یہ آپکے جڑواں یا چڈی بڈی فرینڈز میں سے ہوتے ہیں۔ انہی کے بارے میں کہا جاتا ہے، "ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اسکا ، آسماں کیوں ہو"
نرگسی دوست:
ہر دو پارٹیوں میں سے ایک کی خوش قسمتی اور دوسرے کی بد قسمتی سے یہ آپکے فرینڈ بلکہ آپ انکے فرینڈ ہوتے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھولے سے بھی آپکی پوسٹ پر کوئی کمنٹ یا لائک نہیں کرنا ہوتا۔ انکی نازک طبعی کا عالم یہ ہوتاہے کہ آپ کے نارمل سے کمنٹ بھی طبیعت پر گراں گزر سکتے ہیں، اور وہ ڈیلیٹ کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے دوست تادیر آپ کی پروفائل میں شامل نہیں رہتے۔ یا تو وہ خود آپ کو اپنی پروفائل سے نکال دیتے ہیں خاموشی سے، یا پھر آپ انکے ساتھ ایک دن یہی سلوک کرڈالتے ہیں۔
آپ کو یہ "مذمون" پڑھ کر کہیں ایسا تو نہیں لگ رہا کہ " دوست ہوتا نہیں پروفائل پر ہر آنے والا"
Labels:
Sociograph
Sunday, September 15, 2013
شوئیاں
پھوت مارنا یا شیخی بھگارنا ہمارا خاندانی شوق ہے۔ دادا مرحوم سے یہ شوق ورثے میں چلا آرہا ہے، مرحوم ہمیشہ ہماری جاب کا ایک گریڈ بڑھا کر بتاتے تھے، یہی حشروہ اپنے بچوں کی جاب کے ساتھ کرتے تھے۔ اگر کبھی ہم ان کے ساتھ فلم دیکھنے سنیما جانے کی غلطی کر لیتے ۔۔۔ ویسے یہ غلطی ہم بچے بلاناغہ ہر سال کر لیا کرتے تھے ۔۔۔ تو سنیما پہنچتے پہنچتے بس کے ہر مسافر کو یہ خبر ہو چکی ہوتی تھی کہ ہم فلم دیکھنے جا رہے ہیں، کس سنیما میں اور کون سی۔
تو یہ جراثیم ہم میں بھی درجہ بہ درجہ منتقل ہوئے ہیں، خاصے کم منتقل ہوئے ہیں، پرہم خاندانی روایتوں سے ہرگز منہ نہیں موڑ سکتے۔ اب ہم دادا ابا کی طرح اپنی کاروائیوں میں غلو تو نہیں کرتے لیکن حسب توفیق شوئیاں ضرور مارتے ہیں۔
Labels:
Biograph
لاہور کی سیر
لاہور ٹھوکر نیاز بیگ کے بس اڈے سے شروع ہوتا ہے، نہر والی روڈ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا ایک دو موڑ مڑ کے لبرٹی میں داخل ہوجاتا ہے، لبرٹی میں ایک ہوٹل ہوتا ہے، اسمارٹ ہوٹل، اس میں ایک جناح کنونشن ہال ہوتا ہے۔ ہوٹل کے سامنے ایک جھگی ہوٹل میں پتوڑے/ بتوڑے بک رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ایک کثیر المنزلہ شاپنگ مال ہوتا ہے، شام ہوتی ہے تو لاہور سمارٹ ہوٹل کے سامنے والی روڈ سے ایک یو ٹرن لے کر دوبارہ ٹھوکر نیاز بیگ کے بس اڈے پر ختم ہوجاتا ہے۔
بحوالہ مستنصر حسین تارڑ میٹنگ 7 ستمبر2013، لاہور
Labels:
Travelogue
Friday, September 13, 2013
مستنصر حسین تارڑ
لوگو دور حاضر و غیر حا ضر کا سب سے خطرناک ادیب مستنصر حسین تا رڑ ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ یہ ایک ایسا خطرناک انفیکشن ہے کہ ایک بار آپ کو لگ گیا تو ساری عمر اس نے آپ کی جان نہیں چھوڑنی۔ غلطی سے بھی اسکی کوئی کتاب نہ پڑھنا، اسکا طریقہ واردات بڑا وکھرا ہے۔ یہ آپ کو اپنی باتوں کے جال میں قید کر لیتا ہے۔ آپ کو ایسی خطرناک جگہوں پر لیے پھرتا ہے کہ آپ کے 'کڑے' نکل جاتے ہیں۔ یہ آپ کو اسطرح گھیرتا ہے کہ آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ آپ کو گھیر گھار کے اس جیپ میں بٹھا دیتا ہے جس میں خواجہ صاحب، کرمانی، ،،،،، کے بعد کسی اور فرد کی جگہ نہیں ہوتی۔ کبھی لے جاکر کسی برفزار میں بٹھا دیتا ہے، تو کبھی یاک سرائے میں۔ کبھی اس جھیل کے کنارے تو کبھی اس جھیل کے کنارے۔ خود تو 'منظر' دیکھتا رہتا ہے، اور آپ اسے دیکھتے رہتے ہیں۔
Labels:
Biograph
Saturday, February 23, 2013
لیڈیز ڈرائیونگ لائسنس
لرننگ لائسنس پر پورے دس دن کم ایک سال گاڑی بھگانے کے بعد سوچا کہ پکا لائسنس بنوالینا چاہئے، گاڑی کو اتنا بھگایا پر وہ ہمیں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئی۔ لائسنس برانچ ہمارے آفس کے راستے میں پڑتی تھی لہذہ ایک دن آفس جاتے ہوئے گاڑی ادھر موڑ لی۔ پہلے تو اہلکار گاڑی کو اور اس میں سے برآمد ہوتی ہوئی تنہا خاتون کو دیکھ کر کچھ گھبرائے، کچھ ہڑبڑائے اور کچھ کچھ مسکرائے۔ اگر آپ بھی ایک ہائی روف جس میں آگے پیچھے، دائیں بائیں ،اوپر نیچے عجیب و غریب بمپرز، کیریئراور جانے کیا کیا الا بلا انسٹالڈ ہوں اور فل والیوم میں سی ڈی پلئیر چل رہا ہو ، ایک سنگل پسلی کی نقاب پوش خاتون کو ڈاون لوڈ ہوتے دیکھیں تو آپ بھی بالاترتیب یہی کچھ کریں گے ۔
Labels:
Biograph
Thursday, January 10, 2013
Will Pakistan follow the Tahrir Square discourse?
Pakistan is passing through a Nazuk Dour for more than 65 years. There is a chain of change in Middle East and Arab countries. Some people hope that Pakistan will follow the "Tahrir Square" discourse. I wish their hope may come true. But...
In my opinion situation is different in Pakistan. As a student of Sociology and a Pakistani, I observe that:
1. We are still not a nation. Some external threats or natural disasters unite us for the time being and when it passes, we return back to our own derh eint ki masjid.
In my opinion situation is different in Pakistan. As a student of Sociology and a Pakistani, I observe that:
1. We are still not a nation. Some external threats or natural disasters unite us for the time being and when it passes, we return back to our own derh eint ki masjid.
Wednesday, January 9, 2013
قاہرہ اور کراچی
آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، اس شہر یا ملک کا اپنے شہر اور ملک سے تقابل ایک لازمی امر ہے، دانستہ یا نا دانستہ آپ ہر اچھائی یا برائی کا اپنے ملک اور معاشرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔اگر نہ بھی کریں تو ایک سوال آپ کو اس تجزیہ پر مجبور کر دے گا، " دو یو لائیک ایجپت؟" جو آپ سے ہر مصری ضرور کرے گا ۔ حتیٰ کہ ٹیکسی ڈرائیور بھی۔ قاہرہ کراچی کی طرح ہے، سڑکیں ، بازار، محلے، پوش علاقے، غریب کچی بستیاں، مہنگے شاپنگ مالز، لوکل مارکیٹیں، جمعہ بازار سب کچھ وہی ہے جو کراچی میں ہے، بلدیہ عظمیٰ کی حالت بھی بلدیہ کراچی والی ہے، جو سڑک کھود دی ہو مہینوں تک دوبارہ نہیں بنے گی۔ ملک کے ہر کونے سے لوگ قاہرہ آتے ہیں اور پھر واپس نہیں جاتے۔ ایک چیزہے جس پر قاہرہ والے فخر کر سکتے ہیں، وہ ہے زیر زمین میٹرو ٹرین، جو سطح زمین کی ٹریفک کے بوجھ کاایک بڑاحصہ قاہرہ کے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب میں اٹھائے اٹھائے پھرتی ہے۔ صبح اور شام کے اوقات میں اسقدر رش ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ، ہر دو منٹ بعد ایک ٹرین آتی ہے ایک جاتی ہے۔ کاش کوئی کراچی میں بھی میٹرو نہیں تو لوکل ریلوے ہی چلا دے۔
مصر کا معاشرہ تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے، کئی دہائیوں سے ٹورسٹوں کے سیلاب کے زیر اثر مصری نہ پورے عرب / مسلمان رہے نا ہی پورے یورپی بن پائے ہیں۔ لیکن ایک کام انھوں نے کیا ہے وہ اپنی معاشرت کو مذہب سے الگ کر لیا ہے، مذہب، خصوصاً الازھر عام مصریوں کی زندگی میں اسطرح دخل نہیں دیتا جس طرح جماعت اسلامی کے کارکن پاکستان میں ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑاتے ہیں اور دوسروں کا جینا حرام کرتے ہیں۔خصوصاً قاہرہ میں اگر آپ مذہب پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو بھی آزاد ہیں اور اگر گرل فرینڈ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرنیل کے کنارے واک کرنا چاہتے ہیں تو بھی آزاد ہیں۔ واک کے دوران وقت نماز آگیا تو دونوں مسجد میں جا کر با جماعت نماز ادا کریں گے اور پھر اپنی واک جاری کرلیں گے۔ محمد مرسی کی حکومت میں حالات تھوڑے تبدیل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ہم سے بہتر ہی ہیں۔
قاہرہ میں خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں اور اس میں تعلیم یافتہ یا ناخواندہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے، ہر گلی/ سڑک کے کونے پر ایک کھوکھا موجود ہوتا ہے جسے عموماً خواتین چلاتی ہیں ۔ جس طرح کراچی میں ہر کونے پر پان کی دکان ہوتی ہے، لیکن اس کھوکھے پر مشروبات، سگریٹ، چپس، بسکٹس وغیرہ دستیاب ہوتے ہیں، قاہرہ کے باشندے چپسی اور پیپسی کے نشئی ہیں [چپسی چپس کا مشہور برانڈ ہے لہذہ چپس کا نام ہی چپسی پڑ گیا ہے] ۔ جیولری شاپ ، منی ایکسچینج وغیرہ پر بھی خواتین ہی سیلزپرسن ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ڈپلیکیٹ چابی بنوانے کی ضرورت پیش آئی تو دکان میں ایک ۲۲/ ۲۳ سال کی دوشیزہ بیٹھی تھیں ۔ ہم سمجھے کہ یہ بھی چابی بنوانے آئی ہونگی، پتہ لگا کہ وہ ہی دکاندار ہیں، ۳۰ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں چابی بنائی اور ہمارے ہاتھ میں تھما دی، ہم کراچی والے ہکا بکا دوشیزہ کو دیکھتے رہ گئے، اگر صنف مخالف ہوتے تو قسم سے روز ایک چابی گم کر دیتے۔
قاہرہ کی حد تک شادی خواتین کے تعلیمی کیریئر میں دخل انداز نہیں ہوتی، شادی کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم جاری رکھنا عام معمول ہے۔ ایک خاتون نے راقم الحروف کے سامنے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ کا دفاع کیا اور دو دن بعد اپنی دوسری بیٹی کو جنم دیا۔
بسوں میں مردوخواتین کی سیٹوں کی تخصیص نہیں ہوتی، ہم ٹھہرے کراچی کی جینڈر ڈسکریمنیٹڈ مخلوق، شروع میں تو بہت سنمبھل سنمبھل کر بسوں میں بیٹھتے رہے، اکثر تو کھڑے رہنے کو ہی ترجیح دیتے ، لیکن " چلو تو سہی اعتبار بھی آ ہی جائے گا" کے مصداق عادت ہو ہی گئی۔ آخر کب تک کمر اکڑا کر بیٹھتے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ مصریوں کے برابر تو ہم دھڑلے سے بیٹھ جاتے تھے، لیکن اپنے پاکستانی کولیگ جو کہ ایک خان صاحب تھے، ان کے برابر بیٹھتے ہوئے اختلاج کا شکار ہو جاتے تھے ، ہم سے زیادہ خان صاحب ۔ لیکن تجربے نے یہ سمجھایا کہ جب تک آپ بسوں میں آپ جینڈر ڈسکریمنیشن کرتے ہیں حضرات کو کافی بے چینی رہتی ہے، لیکن "محمودہ" و ایاز کو ایک ہی صف میں بٹھا دیں تو رفتہ رفتہ بے چینی و دلچسپی ، بے حسی و بے رخی میں بدل جاتی ہے، کم ازکم مصریوں کی ۔
قاہرہ کے باسی سبزے/ باغیچوں کے شوقین ہوتے ہیں، شائد اسکی وجہ یہ ہو کہ مصر کا ۹۰ فیصد سے زیادہ رقبہ صحرا پر مشتمل ہے، تقریباً ہر گھر کے سامنے ایک چھوٹا سا باغیچہ ضرور ہوتا ہے،جس کی بہت زیادہ خاطر داری کی جاتی ہے۔
ایک اور خوبی یہ ہے کہ خواہ غریب ہو یا امیر، تعلیم یافتہ ہو یا نا خواندہ، ہر خاندان شام میں اپنی بساط کے مطابق سیر و تفریح کو ضرور نکلتا ہے، خواہ وہ مکان کے سامنے والے باغیچے میں جا کر بیٹھنا اور پڑوسیوں سے گپ شپ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ دریائے نیل کے کنارے یا نیل میں کشتی کی سیر زیادہ تر باشندوں کی پسندیدہ تفریح ہے، اسکے علاوہ پورے قاہرہ میں ان گنت پارک، باغیچے اور ہوٹل ہیں جہاں سب اپنی اپنی بساط کے مطابق شام کا وقت گزارتے ہیں۔ ہم کراچی والے اس ضمن میں بہت بے حس اور مشینی ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس اپنے لیے اور اپنی فیملی کے لئے وقت ہی نہیں ہے، اور اگر وقت ہے تو امن و امان کی صورت حال اجازت نہیں دیتی۔ خیال رہے کہ اس میں قاہرہ کے اوسط درجے سے کم حیثیت باشندے بھی شامل ہیں ، کیا آپ کراچی میں ایک چوکیدار یا گارڈ سے یا اس کی فیملی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ روزانہ شام کو باقاعدہ سیرو تفریح کے لئے نکلیں گے، چاہے وہ نزدیکی شاہراہ پر ایک واک ہی ہو۔
قاہرہ کا آرکیٹکچر بہت ہی خوبصورت ہے، قدیم اسلامی اور قبطی عمارات کی خوبصورتی اپنی جگہ پر ہے لیکن نئی بنائی جانے والی عمارات میں بھی حس لطافت نظر آتی ہے، نہ صرف سرکاری عمارات اور مساجد بلکہ عام عمارات جیسے کہ نئے تعمیر ہونے والے فلیٹس میں بھی خوبصورتی کا پہلو نظر آتا ہے، جو کم از کراچی میں مفقود ہے۔
مصر میں باالعموم اور قاہرہ میں باالخصوص مساجد میں خواتین کا با جماعت نماز میں شامل ہونا عام بات ہے، ہر مسجد میں ایک جانب ٹھیک ٹھاک وسیع و عریض قطعہ خواتین کے لیے مخصوص ہوتا ہے، خاص کر جمعہ کی نماز میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد شامل ہوتی ہے، جمعہ کا دن بڑی مساجد میں ایک طرح سے فیملی پکنک ڈے ہوتا ہے، لوگ نماز پڑھ کر وہیں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں بچے وہیں مسجد کے باغیچے میں کھیلتے رہتے ہیں وہیں لنچ ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی مسجدوں کو اتنا مقدس بنادیاہے کہ اکثر اس تقدس سے ڈر کر ہم مسجد جاتے ہی نہیں اور رفتہ رفتہ مسجد کے ساتھ ساتھ اسلام سے بھی دور ہوتے جاتے ہیں۔
کچھ مخصوص مساجد میں نکاح رجسٹرار کے دفاتر بنا دیے گئے ہیں، جس کے ساتھ ایک سے زائد بڑے ہال بنے ہوتے ہیں ان مساجد میں بیک وقت ۵/۶ نکاح کی تقریبات ہوتی ہیں جن میں دلہا دلہن کے دوست اور رشتہ دار شریک ہوتے ہیں ، نکاح کے بعد نیا جوڑا سب کے ساتھ پورے شہر کا ایک چکر لگاتا ہے۔ اس دوران گاڑیوں کے ہارن سے ہاتھ ہٹانا منع ہوتا ہے ،اس کاروانِ شادی کا اختتام نیل کے کنارے یا مقطم کورنیش پر ہوتا ہے، مقطم کورنیش شہر سے نسبتاً اونچی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے آپ رات میں پورے قاہرہ کو جگمگ کرتا دیکھ سکتے ہیں اور دن میں براہ راست اہرامات ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ قاہرہ میں شادی کرتے ہیں اور آدھی رات کے بعد مقطم کورنیش کا ایک چکر جلوس سمیت پوں پوں پاں پاں کرتے ہوئے نہیں لگاتے اور پردیسوں کی نیند نہیں برباد کرتے تو آپ کی شادی جائز نہیں ہوتی۔
ایسا نہیں ہے کہ قاہرہ میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے، امیر غریب کی تفاوت بہت واضح ہے، سٹریٹ کرائمز انقلاب کے بعد سے بہت بڑھ گئے ہیں بلکہ ہم غیر ملکیوں کو تو سٹریٹ کرائمز نظر ہی انقلاب کے بعد آئے ہیں، حسنی مبارک کے دور میں سٹریٹ کرائمز سننے میں نہیں آئے تھے۔ انقلاب کے بعد پولیس شتر بے مہار ہو گئی ہے، بلکہ سڑکو ں سے غائب ہی ہو گئی ہے۔
ٹورسٹ ملک ہونے کی وجہ سے ہر دوسرا شخص "تورست گائید" ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، خواہ دکاندار ہو یا ٹیکسی ڈرائیور۔ لیکن ایک بات باعث حیرانی تھی کہ برسوں سے ٹورسٹ ملک ہونے کے باوجود عوام کو اب تک ٹورسٹوں کا عادی ہو جانا چاہیے تھا، لیکن مقامی لوگ ٹورسٹوں پر خصوصاً گوریوں اور گوروں پر نہ صرف آوازیں کستے ہیں بلکہ ہراساں بھی کرتے ہیں، وہ بھی قاہرہ میں جو کہ دارالخلافہ ہے، تو دوسرے شہروں کا کیا حال ہوگا۔
قاہرہ کی آبادی انکے مطابق بیس ملین سے زائد ہے، دوران انقلاب اور اب صدر محمد مرسی کے قوانین کے خلاف تحریر اسکوائر اور شہر کے دوسرے مقامات پر مظاہرے ہوئے لیکن کراچی کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے تو مظاہرین نے شہر کو نہ ہونے کے برابر نقصان پہنچایا ہوگا، اگر یہی مظاہرے کراچی میں ہوتے تو اب تک پورا کراچی راکھ کا ڈھیر بن چکا ہوتا۔
کیونکہ مصر میں بارش بہت کم ہوتی ہے ، اس لیے قاہرہ کی حد تک پبلک ڈرینیج کا نظام نظرنہیں آتا، ہر بلڈنگ کا 'بوّاب' یا چوکیدار ہر جمعرات کو پوری بلڈنگ کی دھلائی کرکے پانی سڑک پر بہنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے، اور اگر بارش ہو جائے تو بس نہ پوچھیں کیا حال ہوتا ہے۔ پورے فلیٹ میں واش روم کے علاوہ کہیں اور سے پانی کی نکاسی کا کوئی انتطام نہیں تھا، بارش کے بعد بالکنی دو یا تین دن تک پانی سے بھری ہے تو بھری ہے، ہوا سے ہی خشک ہوگا تو ہوگا۔
مصر کے حسن کے بہت چرچے سنے تھے ، پر چرچے ہی تھے حسن کہیں نہیں دیکھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ہمارے ہاں کی عام لڑکی بھی عام مصری لڑکی کے سامنے خوبصورت ہے، اگر کہیں حسن تھا بھی تو کئی کلو گرام چربی میں پوشیدہ تھا ۔ میرا خیال تھا کہ شائد مجھے تو خالص خواتینی حسد کے باعث حسن نظر نہیں آتا[ہم اپنی نظر میں خود جو ملکہ حسن ہیں]، بے شرم ہو کر ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ کو مصری خواتین میں مردانہ نظریے سے حسن نظر آتا ہے، جواب ادھر سے بھی نفی میں ہی تھا۔ البتہ مصری خواتین جو میک اپ کرتی ہیں وہ نرم ترین الفاظ میں گولا گنڈہ کہا جا سکتا ہے ، اگر آپ نے گولا گنڈہ نیلے اور پرپل کلرز میں بھی دیکھا ہو تو،ویسے آپ اس میک اپ کو بلا مبالغہ پاکستانی بچوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
مصر کے کھانے بغیر نمک اور مرچ کے ہوتے ہیں جن کو مرچ کھانی ہو وہ ساتھ میں خشک چھوٹی لال مرچ رکھتے ہیں اور ہر نوالے کے ساتھ کھاتے جاتے ہیں۔ سب سے مشہور ڈش فول/فلافل اور تامیّہ/ طامیّہ ہے، ایک لوبیہ سے ملتے جلتے بیج سے مختلف طرح سے بنائی جاتی ہے، ثابت یا پیسٹ کو فول /فلافل کہا جاتا ہے، پیسٹ میں کچھ مسالے ملا کر کباب کی طرح تل کر تامیّہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری خاص ڈش کشری یا کوشری ہے جو دراصل کچھڑی کا عربی تلفظ ہے۔ موٹے چاول، کالے مسور، سفید چنے، دو تین طرح کی سپیگیٹی کو الگ الگ ابال کر مکس کر لیا جاتا ہے ساتھ میں براون کی ہوئی پیاز ، ٹماٹر پیسٹ، سرخ مرچ اور تیل پر مشتمل شربت نما ساس اور لہسن اور نمک کا لمبا پانی [ساس] ڈال کر کھایا جاتا ہے، یہ دراصل غریبوں کا کھانا تھا یعنی جو دال دلیا مل گیا ابال کر مکس کر کے کھا لیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں کی کھچڑی، برانڈڈ کوشری میں تبدیل ہو گئی ۔ اب کوشری التحریر ایک نامور ریسٹورنٹ چین ہے جو پورے مصر میں سب سے مزیدار کوشری سرو اور سپلائی کرتی ہے۔
قاہرہ کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم میکرو بس [بڑی بس]، مائیکرو بس [ہائی ایس ویگن] اور زیر زمین میٹروٹرین پر مشتمل ہے، کالی ٹیکسی اور میٹر ٹیکسی اس کے علاوہ ہے۔ قاہرہ کی بسیں کراچی کی بسوں کے مقابلے میں بیوہ ہوتی ہیں، کسی قسم کی کوئی سجاوٹ یا آرائشی اشیاء کا کوئی گزر نہیں بس میں۔ بسوں کی رفتار کے بارے میں راقم الحروف کا خیال تھا کہ کراچی کی ڈبلیو گیارہ کے پائلٹوں کا کوئی مقابل نہیں ، لیکن قاہرہ کی مائیکرو بسوں کے ڈرائیوروں نے ہماری یہ غلط فہمی دور کر دی۔ اگر کبھی خوف خدا سے واسطہ نہیں پڑا تو ایک بار قاہرہ کی مائیکرو بس ضرور آزمائیں، افاقہ ہوگا۔ البتہ ایک بات ماننے والی ہے، تیز رفتاری بھی کرتے ہیں، صبح شام ٹریفک جام بھی معمول ہیں لیکن رانگ سائیڈ ڈرائیونگ نہ ہونے کے برابر ہے، تمام غل غپاڑے کے درمیان ۹۹ فیصد ڈرائیور ایک دوسرے کو راستہ دے دیتے ہیں۔
قاہرہ میں سب سے اچھا روزگار ٹیکسی چلانا ہو سکتا ہے، 20 – 25 مصری پاونڈ میں پٹرول کی ٹنکی فل ہو جاتی ہے، اورآپ پورا قاہرہ کا چکر لگا سکتے ہیں۔ پرپانچ کلو میٹر بھی جانا ہو تو کرایہ بیس پاونڈ سے شروع ہوگا۔ میٹر ٹیکسی والا آپ کو اتنے لمبے راستے سے لے جائے گا کہ بیس پاونڈ سے زیادہ ہی کرایہ بن جائے۔ منافع بخش روزگار ہونے کے سبب زیادہ تر میٹر ٹیکسی ڈرائیور پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔
مقامی مارکیٹوں میں خصوصاً خان الخلیلی بازار جوکہ قاہرہ کی مشہور سوونئیر مارکیٹ ہے، میں خریداری کے تجربے سے اندازہ ہوا کہ اگر آپ کو کراچی میں گلیوں میں افغان/پٹھان سیلز مینوں سے خریداری کا تجربہ ہے تو آپ خان الخلیلی میں اطمینان سے شاپنگ کر سکتے ہیں ۔ دکان دار جس شے کی قیمت 100 پاونڈ بتائے آپ بلا کھٹکے 5 پاونڈ سے دام لگائیں 15 میں سودا پٹ جائے گا، اگر آپ بہت ماہر خریدار ہیں تو 15 سے کم میں بھی ممکن ہے۔
Labels:
Sociograph
Subscribe to:
Posts (Atom)