ہم جیسے غریب غربا ایک تو خود کو بہت کمتر اورنااہل سمجھتے ہیں .. دوسرا سلیبریٹیز سے بہت مرعوب ہوتے ہیں اور چاہے انکو کتنا بھی پسند کریں اگر وہ سامنے بھی ہوں تو ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر پاتے, بات کرنا تو اس کے بعد کی بات ہے .. اور فون کرنا اور فون پر بات کرنا تو ناممکنات میں گنتے ہیں.
قبل از یوم گزشتہ ہمارا بھی یہی حال تھا. ہم سمیرہ سے کئی بار یہ گوش گزار کر چکے تھے کہ بھئی سلیبز سے دور کی دعا سلام اچھی .. اور پہلی بار ہم لاہور چاچا جی سے ملنے کے شوق میں کم اور سمیرا سے ملنے کے شوق میں زیادہ گئے تھے.
ہم چاچا جی سے بھی دور دور کی دعا سلام کے حق میں تھے ... پہلی بار جب سمیرا نے چاچا جی سے فون پر بات کروائی تھی تو گھبراہٹ میں کچھ الفاظ حلق میں ہی قیام پذیر ہوگئے اور جو باہر آئے وہ اپنی ترتیب بھول گئے بعد والے لائن توڑ کر آگے آگئے اور آگے والے منہ دیکھتے رہ گئے ان کی باری آئی تو چراغوں میں روشنی نہ رہی. اور کچھ الفاظ تو دوبارہ بھی باری لینے لگ گئے.