لاجواب اور دانے دارچائے کے کانٹے دار میچ میں ایوری ڈے نے فل ٹاس مارا اور وکٹ اڑانے کی بھرپور کوشش کی ۔ درمیان میں ایک ترکھان کمپنی نے اپنی فیلڈ بلکہ پچ کی شو ماری کہ آو ناں ہماری میز پر ذرا خشبو لگا کے۔ کچھ لوگوں نے چائے میں ہاتھ کا ذائقہ ملانے پر اصرار کیا تو کسی نے ذائقے کا معیار خان صیب کی چائے سے پیش کیا۔ اس سے پہلے بھی مہنگےواشنگ پاوڈر اورکم قیمت میں معیاری واشنگ پاوڈر کے درمیان ایک دھلائی کولڈ وار برسوں سے جاری ہے۔
Friday, February 5, 2016
Monday, January 25, 2016
غربت کے سائیڈ ایفکٹس II
ترقی ناقابل گریز ہے۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ۔ لیکن ہمارے آپکے ارد گرد ہر شخص نے نہیں تو اکثریت نے پچھلے ساٹھ پینسٹھ سالوں میں لازمی ترقی کی ہے، جو پیدل تھے وہ سائیکل پہ آگئے ہیں، سائیکل والا موٹر سائیکل، موٹر سائیکل والا کار میں اور کار والا اب بڑی اور مہنگی سے مہنگی کار مین سفر کرتا ہے۔ کوئی بھی آج اس گھر میں نہیں رہتا جس میں آج سے پچاس یا ساٹھ سال قبل رہتا تھا۔ اگر پلاٹ وہی ہے تو مکان ضرور تبدیل ہوا ہے۔ اور پہلے سے بہتر ہوگیا ہے۔ پہلے اگر ایک باپ کمانے والا تھا تو اب اس کے ساتھ اسکے بیٹے یا بیٹی بھی ہاتھ بٹانے میں شامل ہیں ۔ جہاں وسائل بڑھتے ہیں وہاں لائف اسٹائل بھی تبدیل ہوتا ہے، اور سب سے بڑی تبدیلی رہن سہن کے طور طریقوں میں آتی ہے۔ طور طریقوں میں تبدیلی خوشگوار تو ہوتی ہے لیکن بندے کو خوار بھی کردیتی ہے۔ اور جنم لیتی ہے
Poverty of Culture
ویسے تو یہ ہمارے حالات حاضرہ و غیر حاضرہ ہیں، پر کسی اور کو اس میں اپنا ماضی و حال نظر آئے تو "ادارہ " ہرگز قصور وار نہ ہوگا۔
پرانے چھوٹے سے گھر سے نئے ، بڑے اور ویل فرنشڈ گھر کے سفر تک پرانی عادتیں بڑی مشکل سے چھوٹتی ہیں ۔ کچے مکان میں تو جہاں چاہا پچکاری مار دی، جہاں چاہا کلی کر لی، پان پیک ڈالا، ہاتھ دھو لیے۔ گریس کے ہاتھ دیوار سے پونچھ دئیے، ناک صاف کر لی۔ چھوٹے بچوں کو شوشو پوٹی بھی صحن کے کسی کونے میں کروادی ، مٹی میں مٹی ہوجانی دو چار دن اِچ۔ بسکٹ یا چپس کھائے ، تھیلی ادھر ادھر کردی ۔
Labels:
Biograph
Friday, January 22, 2016
ایک اندھا ایک کوڑھی: پرفیکٹ لو اسٹوری
قاہرہ میں قیام کے دوران ہمارا واسطہ بہت سی مشرقی یورپی خواتین سے رہا ۔ ان میں سے کچھ خواتین تو ہماری ہی کورس میٹ تھیں اور کچھ ان کی ہموطن خواتین تھیں جو مصر میں مختلف کلچرل ایکسچینج پروگرامزکے تحت عربی لینگویج کورسز کرنے آئی تھیں۔
زیادہ تر مشرقی یورپی ممالک 90 کی دہائی میں سوویت یونین اور کمیونزم سے آزاد ہوئے تھے۔ کچھ یورپی ممالک یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ہونے کے بعد وجود میں آئے تھے۔ ان تمام ممالک میں چند خصوصیات مشترک تھیں اور شاید اب تک ہیں ۔ یہ سب کے سب کسی نہ کسی ایسی سیاسی یا غیر سیاسی پارٹی کے زیرِ حکومت تھے جو اِن ڈائریکٹلی ان ہی ملکوں کے کے اشاروں پر ناچتی تھی جن سے یہ ممالک آزاد ہوئے تھے۔ گرانی، بے روزگاری، افراط زر ، اقرباء پروری اور رشوت [کیش اینڈ کائنڈ دونوں طرح کی] کا دور دورہ تھا۔ ان ممالک کی خوش قسمتی یا بد قسمتی سے انکے ہاں خواندگی کا تناسب 99 فیصد سے زائد ہے اور ظاہر ہے کہ ان ممالک میں نہ صرف تمام افراد کے لیے نوکریاں مفقود ہیں بلکہ نوجوان خواتین کے لیے برسرِ روزگار بوائے فرینڈز یا مستقبل کے مجازی خدا بھی available نہیں ۔
Labels:
Sociograph
Sunday, January 10, 2016
اس بے چاری کی شادی نہیں ہوئی ناں
جب کوئی ایسی خاتون جس کی شادی اب تک نہ ہوسکی ہو، یا اس نے کی نہ ہو پینتالیس سال عمر کے آس پاس اگر زیادہ غصہ کرتی پائی جائے یا عرف عام میں چڑچڑی ہو جائے تو ہر ایک اس کے اس رویے کا الزام اسکی نہ ہوسکنے والی شادی پر دھر دیتا ہے کہ اسکی شادی نہیں ہوئی ناں تو اس لیے یہ چڑچڑی ہوگئی ہے۔
Labels:
Biograph,
Sociograph
Wednesday, January 6, 2016
سوالیہ نشان؟؟ ایک مختصر افسانہ
لڑکے کی ماں نے بیک جنبش زبان لڑکی کو ریجیکٹ کردیا:
"لڑکی فیس بک استعمال کرتی ہے پتہ نہیں کتنے مردوں سے باتیں کرتی ہوگی"
سو لڑکی کا فیس بک استعمال کرنا اسکے کردار کی گواہی بن گیا اور وہ بدکردار یا بے کردار ٹھہرائی گئی
ان کا لڑکا بھی فیس بک استعمال کرتا تھا، کئی انجان لڑکیاں اسکی فیس بک فرینڈز تھیں۔ ان باکس میں بھی چیٹ کرلیتا تھا۔
پر شریف تھا ۔۔ کیونکہ مرد تھا ناں
پھر وہ شریف زادہ ایک شریف زادی بیاہ لایا۔ فیس بک وہ بھی استعمال کرتی تھی پر لڑکے کی والدہ کے علم میں نہیں تھا سو وہ بھی شریف ٹھہری ۔۔
پرمیں سوچ رہی ہوں کیا وہ واقعی شریف لڑکی ہے لڑکے کی والدہ کے میعار کے مطابق؟؟؟
لڑکے کی بہنیں بھی فیس بک استعمال کرتی ہیں۔
انکے رشتے کے وقت بھی اگر اگلوں نے شرافت کا یہی معیار رکھا تو ؟؟؟
-----------------------------------------------------------------------
نوٹ: یہ میری اپنی کہانی نہیں ہے ۔۔ سو مجھ پر اپنی ہمدردی ضایع نہ کریں
Labels:
Sociograph
Tuesday, November 24, 2015
مکران کوسٹل ہائی وے کے جلوے 2
زیرو پوائنٹ |
Labels:
Travelogue
Thursday, November 19, 2015
تھینک یو قائد اعظم
کل میری گاڑی کے آگے والی گاڑی کی بیک اسکرین پر پاکستان کا جھنڈا بنا ہوا تھا وہی جو پوری اسکرین کو ڈھک لیتا ہے ... مجھے خیال آیا کہ میں بھی بنوالوں .. پھر خیال آیا 14 اگست تو گزر گئی, پھر سوچا کہ 25 دسمبر آنے والی ہے اس پر بنوا لوں .... 25 دسمبر سے خیال آیا کہ ہر طرف "تھینک یو راحیل شریف" ہو رہا ہے ... کہیں دل سے کہیں شرارت میں .. کہیں کسی کو طعنہ دینے میں کہیں مذاق اڑانے میں ۔ ۔ 14 اگست پہ بھی گاڑیوں پر, پوسٹرز میں ہر جگہ تھینکیو راحیل شریف ....
Subscribe to:
Posts (Atom)