Thursday, December 25, 2025

فاطمہ نامہ 1

فاطمہ بہت چھوٹی سی تھی شاید ایک ڈیڑھ سال کی۔ ہم اسے انگلی چوسنے سے منع کرتے تھے۔ ایک دن ہم دونوں نیچے اکیلے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ اس نے منہ میں ہاتھ ڈالا میں نے اسے منع کیا۔ اس نے نکال لیا تھوڑی دیر بعد پھر انگلی منہ میں۔ میں نے قریب سے ماچس اٹھائی اور کہا میں تمہارا ہاتھ جلادوں گی اب اگر منہ میں لیا۔ فاطمہ ایک دم خوفزدہ ہو کر مجھ سے دور ہوگئی۔ اس کے چہرے کے تاثرات مجھے آج تک نہیں بھولتے۔ جتنی دہشت تھی اس کے چہرے پر۔
میں نے ماچس دور پھینکی اور اسے گلے لگانے، یقین دلانے کو دوڑی کہ نہیں آپ تو میرا بیٹو ہو، میں آپ کا ہاتھ کیسے جلاسکتی ہوں۔ لیکن اس نے میری بات کا یقین نہیں کیا اور مجھ سے دور بھاگنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس دن میں نے کان پکڑے کہ مذاق میں بھی کبھی بچوں سے ایسی بات نہیں کہنی یا کرنی۔ کیونکہ یہ مجھے پتا ہے کہ میں صرف دھمکی دے رہی ہوں۔ اسے نہیں پتا۔ اسے تو یہی پتا ہے کہ پھپھو جو کہہ رہی ہیں وہ کردیں گی، یعنی سچ کہہ رہی ہیں۔

اس کے بعد سے آج تک میں نے کبھی بچوں کو ہاتھ لگانا تو دور کی بات کبھی ہاتھ لگانے کی دھمکی بھی نہیں دی۔ میرا سارا زور انہیں یہ یقین دلانے پر ہوتا ہے کہ وہ میرے ساتھ محفوظ ہیں۔ میری ذات سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا موجودگی میں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ہم بڑے اسی لیے ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کے سر پر مضبوط سائبان بن کر رہیں۔ جس کے سائے میں انہیں کوئی شے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

صرف بچوں کو ہی نہیں کبھی کبھی ہمیں اپنے ارد گرد بڑوں کو بھی یہ یقین دہانی کروانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں۔ بڑوں کو فار گرانٹڈ لینے لگتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی تجدید محبت، تجدید وفا، تجدید دوستی ہر انسان کی جذباتی ضرورت ہے۔

محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپناقدرت نے رکھاہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
ا سے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقین کی آخر ی حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو !
نگاہوں سے ٹپکتی ہو ، لہو میں جگمگاتی ہو !
ہزاروں طرح کے دلکش ، حسیں ہالے بناتی ہو !
ا سے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے

👸👸👸👸👸