ہمارے یونی ورسٹی کے استاد دانشور کا تلفظ "دان شور" کرتے تھے یعنی جو اپنی دانش کا شور زیادہ مچاتا ہو۔
ونس اپون اے ٹائم رائیٹرز خاص کر کالم نگاران سوشل میڈیا سے پہلے اپنی اپنی پرائیویٹ جنتوں یعنی یوٹوپیازمیں رہا کرتے تھے۔ جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔ کچھ ہم نواؤں نے تعریفوں کے پل باندھ دئیے تو ایک آدھ نے مخالفت کردی۔ عوام ان کی بلا سے ان سے متفق ہوں نہ ہوں وہ کب عوام کے لیے لکھتے تھے۔ عوام میں سے جو انہیں پڑھتے تھے ان میں سے اعشاریہ زیرو زیرو زیرو ایک فی صد ایڈیٹر کی ڈاک کے ذریعے اپنی آواز یا رائے متعلقہ کالم نگار تک پہنچانے کی کوشش کرتے ان میں سے اکا دکا اخبارات میں چھپ بھی جاتی اور وہ اسی پر خوش ہوجاتے۔ متعلقہ کا لم نگار اس رائے کو پڑھتا یا نہیں کچھ پتا نہ چلتا کیونکہ وہ متعلقہ کے بجائے اس رائے سے مطلقہ ہی رہتا یعنی جواب دینے کی زحمت کم ہی کرتا۔