Thursday, July 7, 2016

یادِ رفتگاں

میٹھی عید 


رمضان بھر ہمیں  میٹھی عید کا انتظار رہتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں نئے کپڑے بس عید کے عید ہی بنتے تھے یا پھر گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد نیا یونی فارم ملتا تھا۔ عید پر دو جوڑے بنتے تھے۔ ایک ریشمی جو عموماً فلیٹ کی پھولدار قمیص اور سادی میچنگ شلوار پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعد میں جب سادی شلوار قمیص کا دور آیا تو پہلے لیڈی کریپ اور پھر کنگ پیلس نامی کپڑے کا سادہ سوٹ اور ساتھ ڈیزائن دار دوپٹہ ، لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے۔ہم ابھی اس دور میں ہیں جب دوپٹے کے نام پر ایک دوفٹ لمبی اور چھ انچ چوڑی پٹی کندھے پر پن سے ٹانک دینا کافی ہوتا تھا۔ دوسرا سوٹ کاٹن یا لان کا ہوتا تھا۔
تصویر کے حقوق محفوظ ہیں

Wednesday, July 6, 2016

رفتگاں کی یاد

چاند رات 


کل چاند رات کو بیٹھے بیٹھے ایسے ہی بچپن کی چاند راتیں اور عید یاد آگئیں۔ بچپن کی چاند رات اب سے کہیں زیادہ ایڈونچرس ہوتی تھی۔ عید کی ساری تیاری تو شروع رمضان میں ہوجاتی تھی، امی اور پڑوس کی چند خواتین مل کر اپنے سارے بچوں کے ساتھ بازار جاکرعید کے لیے کپڑوں اور جوتوں کی شاپنگ کرتے تھے۔ کپڑوں سے بڑھ کر جوتوں کے لیے سارے بچوں کو ناپ کے لیے ساتھ لےجانا ضروری ہوتا تھا۔ جوتے ایک نمبر بڑے خریدے جاتے تھے تاکہ زیادہ دنوں تک قابل استعمال رہیں۔ بچوں کی تعداد کافی ہوتی تھی، ایک بار لالو کھیت میں شاپنگ کے دوران پڑوسن کا ایک بچہ ادھر ادھر ہوگیا، جب ملا تو ایک دکاندار نے فقرہ لگایا کہ اتنے سارے بچوں کو ایک رسی میں باندھ کر چلا کرو۔ عموماً ساری شاپنگ لالوکھیت سے ہوجایا کرتی تھی سوائے چوڑیوں کے۔ چوڑیوں کے لیے چاند رات کا دن مخصوص تھا۔ 
گول ٹکیا والی مہندی کا جدید ورژن

Wednesday, June 29, 2016

ایک اشتہار اور سو افسانے

تکنیکی اغلاط اور کمزوریوں کو چھوڑ کر مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس اشتہار پر اتنا رن کیوں برپا ہے۔ اور صرف حضرات کو ہی اس میں کیوں فحاشی نظر آرہی ہے، خواتین کو کیوں نہیں نظر آرہی، کیا اس لیے کہ خواتین فحش نہیں ہوتیں یا فحاشی بھی خوبصورتی کی طرح دیکھنے والے کی نظر میں ہوتی ہے۔ 

مجھے تو اس اشتہار سے یہ سمجھ آتا ہے کہ اب پاکستانی خواتین بھی وہ کارنامے انجام دے سکتی ہیں جن کے میدان اب تک صرف مردوں کے زیر تصرف تھے۔ اور یہ کارنامے خواتین پہلے سے انجام دے رہی ہیں، پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم الحمداللہ مردوں کی موجودہ ٹیم سے بہتر کھیل پیش کر رہی ہے اور جیت رہی ہے۔ اگر خواتین کے کرکٹ کھیلنے پر اعتراض ہے تو کرکٹ ٹیم بنانے پر اعتراض کرنا تھا اشتہار پر کیوں، اشتہار تو محض اس ٹیم کا ایک ڈپلی کیٹ ہے، کرکٹ سے ہٹ کر ایک پاکستانی خاتون دنیا کے ہر براعظم کی بلند ترین چوٹی سر کر کے آئی ہے، ایک خاتون نے دو آسکر ایوارڈ جیتے ہیں۔ تو پھر مرد اس اشتہار سے کیوں خوفزدہ ہیں۔ 

Sunday, June 26, 2016

قادیانیت کے مغالطے ! قاری حنیف ڈار

قادیانیت کے بارے میں جب ھم بات کرتے ھیں تو اس کا مقصد یہ نہیں ھوتا کہ ھمیں غلام احمد قادیانی اور اس کی امت کے کفر کے بارے میں کوئی شک ھے ، بلکہ اپنی نوجوان نسل کو یہ بتانا مقصود ھوتا ھے کہ یہ " بھولے بھالے " بڑے ھوشیار ھوتے ھیں ،، یہ مظلومیت کا ڈھونگ رچاتے ھیں ،، مذھب ھر انسان کی اپنی پسند ھے اگر انہیں مرزا بطور نبی پسند ھے تو جی بسم اللہ وہ اس کا کلمہ پڑھیں اور اس کی شریعت پر ایمان لائیں ،ھمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ھے ،

قادیانیت اور ریاست: آصف محمود

پہلی قسط 

قادیانیت ایک بار پھر زیر بحث ہے۔اس کے نومولود خیر خواہ اس کا مقدمہ پیش کررہے ہیں 

کوشش کی جارہی ہے کہ اس فتنے کو اسلام کا ایک فرقہ ثابت کر دیا جائے یا اس باب میں خلط مبحث سے اتنی گرد اڑا دی جائے کہ ممکن حد تک ذہنوں کو منتشر کر دیا جائے۔وقت کا انتخاب بھی ان حضرات نے خوب کیا ہے۔معاشرہ انتہا پسندی سے بے زار ہو چکا ہے ، مذہبی طبقہ بھی اس وقت دفاعی پوزیشن میں ہے اور نوجوان بالعموم مذہبی مباحث میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں۔حضرات نے سوچا ہو گا معاشرے کی نظریاتی شناخت پراولین ضرب لگانے کے لیے اس سے اچھا وقت نہیں مل سکتا۔لیکن وہ اندازے کی غلطی کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ اب اہل جبہ و دستار کی جانب سے نہیں ،ان نوجوانوں کی جانب سے ردعمل آ رہا ہے جنہیں اہل مدرسہ نہیں بلکہ تہذیب کا فرزند کہا جاتا ہے۔یوں سمجھیے : مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان لبرل نے ۔

لکیر کھینچی جا چکی ہے : محمد عامر ہاشم خاکوانی

قادیانیوں والے مسئلے پر بحث اب شروع ہوئی ہے تو اس کے کئی مختلف زاویے زیر بحث آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے دو باتیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ ایک ہے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم۔ یہ بالکل الگ مسئلہ ہے ، اس پر سوچ سمجھ کر کلام کیجئے ۔ ممکن ہے آپ میں سے چند ایک اصولی بنیاد پر اس موقف کے حامی ہوں کہ ریاست کو کسی کو غیر مسلم قرار دینے کا حق نہیں، مگر یہ یاد رکھئیے کہ اس وقت اس دلیل کو سب سے زیادہ قادیانی اور قادیانی نواز حلقے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو قادیانیوں کو غیر مسلم نہیں سمجھتے، جن کے نزدیک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مسئلہ ہی نہیں، ویسے تو ایسے لوگوں میں سے بعض کے نزدیک خود رسالت بلکہ خدا کا وجود ہی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی لوگ اب ایک بار پھر نئے سرےسے ، ایک منظم انداز میں ایک طے شدہ مسئلے کو ، ایک متفقہ آئینی ترمیم کو ،جس کے پیچھے عوام ، اہل علم اور تمام تر دینی حلقوں کا مینڈیٹ موجود ہے، اس مسئلے کو بلکہ ایک طرح سے پنڈورا باکس کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی، منظم کوشش ہے۔ یہ حلقہ سوچے سمجھے بغیر آگ سے کھیل رہا ہے، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس طرح وہ بارود کو تیلی دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کا تمام تر نقصان قادیانی حضرات کو ہوگا کہ شدید ردعمل میں یہ نام نہاد لبرل ، سیکولر حضرات تو چپکے سے ایک طرف ہوجائیں گے، نشانہ عام قادیانی بننے کا خطرہ ہے ۔ 

کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟


قادیان کے جھوٹے نبی کی حمایت میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے مگر سوال اٹھانے والوں نے جھوٹے نبی کے بجائے سچے نبی ﷺ سے محبت کی ہوتی، سیرت طیبہ کا کچھ مطالعہ اور مدینہ کی پہلی اسلامی ریاست کا جھوٹے مدعیان اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ سلوک ملاحظہ کیا ہوتا، اس باب میں خلفائے راشدین کے اسوہ کی کچھ خبر ہوتی، اور ما بعد کی مسلم ریاستوں اور حکمرانوں کا طرزعمل معلوم ہوتا تو اس سوال کی نوبت پیش نہ آتی۔ مگر اب سوال ہوا ہے تو آئیے تاریخ سے اس کا جواب حاصل کرتے ہیں۔