ڈرگ ایڈکشن کی طرح سوشل میڈیا خاص کر فیس بک بھی ایک خاصہ طاقتور نشہ ہے۔ آپ ارد گرد سے بے خبر اور دور دراز اور بےگانوں سے باخبر رہتے ہیں، لوگوں کے درمیان بیٹھےہوئے ان کے بجائے کسی اور سے باتیں کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ گھر والے پہلے پہل آپ کو ٹوکتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپ پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ آپ نہ صرف فیس بک پر ہر وقت آن لائن رہتے ہیں بلکہ جب کوئی اور کام بھی کر رہے ہوں تو بھی دھیان موبائل یا ٹیبلٹ کی طرف ہی رہتا ہے کہ کہیں کوئی میسج جواب دینے سے رہ نہ جائے، کوئی نوٹیفیکشن دیکھنے سے رہ نہ جائے، کسی کمنٹ کا جواب دینے سے نہ رہ جائے۔ جیسے اگر کوئی میسج، کمنٹ یانوٹیفیکشن اٹینڈ ہونے سے رہ گیا تو کوئی قیامت شیامت آنے کے امکانات ہوں۔ہر کام کوٹالتے رہتے ہیں کہ ہاں ابھی کرتی ہوں، بس اٹھ رہی ہوں، یہ ایک میسج کا جواب دے دوں، لیکن ایک میسج چیک کرنے کے بعد "من حرامی تے حجتاں ہزار" اور اتنے میں لائٹ چلی جاتی ہے اور آپ کو مزید دوگھنٹے کی چھٹی مل جاتی ہے کوئی اور کام نہ کرنے کی ۔۔۔
Wednesday, November 26, 2014
Sunday, October 26, 2014
جس تن لاگے وہ تن جانے
ایک" اہل زبان" سیاسی پارٹی کے لمبی زبان والے سیاستدان فرماتے ہیں کہ اگر آج ان کو الگ صوبہ دے دیا جائے تو کل کو افغان مہاجرین بھی صوبہ مانگنے لگیں گے۔ ۔۔ توہمارا اسٹیٹس اس ملک میں افغان مہاجرین کے برابر ہے. یا شاید ان سے بھی کم تر .. انہیں تو اس ملک میں پناہ دی گئی تھی ، مہمان نوازی کی گئی تھی اور ہمارے اجداد تو بنا بلائے ہی چلے آئے تھے ... یہ سوچ کر کہ کیا ہوا جو ان کا علاقہ پاکستان میں شامل نہیں ... وہ تو پاکستان بنانے میں شامل تھے نا ....
Labels:
Politics,
Sociograph
Saturday, October 25, 2014
نوحہ گرانِ ماضی
بحثیت قوم ہماری عادات کہن میں سے ایک عادت ہر قسم کے شاندار ماضی کی نوحہ گری بھی ہے ..
کوئی مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کی نوحہ گری میں مصروف ہے جب اسلامی خلافت یا سلطنت کی حدیں کہاں سے کہاں تک تھیں تو کوئی آج یورپ و افریقہ کی علمی ترقی کو مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات کا آئینہ دکھا رہا ہے کہ تم کیا بیچتے ہو یہ تو ہم تھے جس نے تمہیں سوداگری کی الف بے سکھائی.
کوئی مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کی نوحہ گری میں مصروف ہے جب اسلامی خلافت یا سلطنت کی حدیں کہاں سے کہاں تک تھیں تو کوئی آج یورپ و افریقہ کی علمی ترقی کو مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات کا آئینہ دکھا رہا ہے کہ تم کیا بیچتے ہو یہ تو ہم تھے جس نے تمہیں سوداگری کی الف بے سکھائی.
Labels:
Sociograph
Wednesday, October 22, 2014
فن فیصلہ سازی
ہم فیصلہ سازی کے فن سے نا آشنا ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ بھی والدین پر چھوڑ دیاتھا کہ ہم پیدا ہوں یا نہ ہوں اور پیدا ہوں تو کب ہوں یا کتنی عمر میں ہوں، بچپن میں ہی پیدا ہوجائیں یا کچھ عقل آنے تک انتظار کرلیں۔ واپسی کے لیے بھی انتظار ہے کہ کب "کوئی" ہمیں واپس بلانے کا فیصلہ کرتا ہے۔
بچپن سے لے کر اب تک ہمارے ہر کام کا فیصلہ فزیبلیٹی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے، اسکول جو پاس تھا اور جس میں محلے کے دوسرے بچے پڑھتے تھے اسی میں داخل کرائے گئے کہ آنا جانا انہی بچوں کےساتھ ہوجائے ۔ کالج بھی جو سب سے نزدیک تھا اسی کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا کہ اس وقت کراچی کے خراب ترین حالات میں وہاں سے جان بچا کر بھاگنا سب سے آسان تھا۔ یونیورسٹی کی باری آئی تو ابا نے کہا دیکھ لو اتنی دور کا سفر کر سکتی ہو، آ جا سکتی ہوں تو داخلہ لے لو۔ یعنی میرے بھروسے پہ نہ رہنا اپنی فزیبلٹی خود دیکھ لو۔
بچپن سے لے کر اب تک ہمارے ہر کام کا فیصلہ فزیبلیٹی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے، اسکول جو پاس تھا اور جس میں محلے کے دوسرے بچے پڑھتے تھے اسی میں داخل کرائے گئے کہ آنا جانا انہی بچوں کےساتھ ہوجائے ۔ کالج بھی جو سب سے نزدیک تھا اسی کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا کہ اس وقت کراچی کے خراب ترین حالات میں وہاں سے جان بچا کر بھاگنا سب سے آسان تھا۔ یونیورسٹی کی باری آئی تو ابا نے کہا دیکھ لو اتنی دور کا سفر کر سکتی ہو، آ جا سکتی ہوں تو داخلہ لے لو۔ یعنی میرے بھروسے پہ نہ رہنا اپنی فزیبلٹی خود دیکھ لو۔
Labels:
Biograph
حاصل ملاقات: لاہور سے یارقند @ کراچی 19 اکتوبر 2014
ہم جیسے غریب غربا ایک تو خود کو بہت کمتر اورنااہل سمجھتے ہیں .. دوسرا سلیبریٹیز سے بہت مرعوب ہوتے ہیں اور چاہے انکو کتنا بھی پسند کریں اگر وہ سامنے بھی ہوں تو ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر پاتے, بات کرنا تو اس کے بعد کی بات ہے .. اور فون کرنا اور فون پر بات کرنا تو ناممکنات میں گنتے ہیں.
قبل از یوم گزشتہ ہمارا بھی یہی حال تھا. ہم سمیرہ سے کئی بار یہ گوش گزار کر چکے تھے کہ بھئی سلیبز سے دور کی دعا سلام اچھی .. اور پہلی بار ہم لاہور چاچا جی سے ملنے کے شوق میں کم اور سمیرا سے ملنے کے شوق میں زیادہ گئے تھے.
ہم چاچا جی سے بھی دور دور کی دعا سلام کے حق میں تھے ... پہلی بار جب سمیرا نے چاچا جی سے فون پر بات کروائی تھی تو گھبراہٹ میں کچھ الفاظ حلق میں ہی قیام پذیر ہوگئے اور جو باہر آئے وہ اپنی ترتیب بھول گئے بعد والے لائن توڑ کر آگے آگئے اور آگے والے منہ دیکھتے رہ گئے ان کی باری آئی تو چراغوں میں روشنی نہ رہی. اور کچھ الفاظ تو دوبارہ بھی باری لینے لگ گئے.
ہم چاچا جی سے بھی دور دور کی دعا سلام کے حق میں تھے ... پہلی بار جب سمیرا نے چاچا جی سے فون پر بات کروائی تھی تو گھبراہٹ میں کچھ الفاظ حلق میں ہی قیام پذیر ہوگئے اور جو باہر آئے وہ اپنی ترتیب بھول گئے بعد والے لائن توڑ کر آگے آگئے اور آگے والے منہ دیکھتے رہ گئے ان کی باری آئی تو چراغوں میں روشنی نہ رہی. اور کچھ الفاظ تو دوبارہ بھی باری لینے لگ گئے.
Labels:
Sociograph
Monday, September 8, 2014
Political Romanticism
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر تین لیڈر ہی ایسے ہیں جو اپنی ساحرانہ شخصیت کی بنیاد پر لیڈر بنے ہیں۔ پہلے بھٹو صاحب، دوسرے الطاف حسین اور تیسرے عمران خان۔ پاکستان کی سیاست میں سیاسی رومانویت پسندی کوئی نیا پہلو نہیں ہے۔
میرا سیاست سے پہلا انٹرایکشن بہت کم عمری میں ہوا تھا جو پہلی یاد سیاست سے وابستہ ہے وہ کوئی ایک الیکشن تھے جس میں ایک جانب بھٹو صاحب اور دوسری جانب نو ستاروں والی کوئی سیاسی جماعت تھی۔ محلے کی ساری خواتین باجماعت بھٹو صاحب پر فدا تھیں اور زیادہ تر مرد بھی کیوں کہ مردوں کی زیادہ تعداد مزدور پیشہ تھی۔ صرف ایک خان صاحب کا گھرانہ تھا جو نو ستاروں کی حمایت کرتا تھا۔ الیکشن والے دن ساری خواتین نوستاروں والوں کی ارینج کی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر پولنگ اسٹیشن گئیں اور بھٹو صاحب کو ووٹ ڈال آئیں۔
Labels:
Politics
Sunday, September 7, 2014
کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
زبان خلق کیا کچھ کہتی ہے اس میں سے ہر ایک ا پنی پسند کے نقارے سنتا ہے اور جب اپنی پسند کے نقارے اتنے باآواز بلند اور اتنی تعداد میں بج رہے ہوں تو ان میں سے غیر جانبداری سے ہر نقارے کو سننا اور سمجھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
Labels:
Abstract
Subscribe to:
Posts (Atom)