Saturday, July 30, 2016
Thursday, July 28, 2016
موو آن
تعلق کا دھاگہ ایک بار ٹوٹ کر دوبارہ جوڑ لیا جائے،
تب بھی جوڑ میں گرہ تو پڑ ہی جاتی ہے۔
جو ہمیشہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ یہ تعلق اب پہلے جیسا ہموار نہیں ۔ ۔
پھر ہر سیدھی سادی بات کا مطلب بھی کچھ اور سمجھ لیا جاتا ہے
یا آپ کو لگتا ہے کہ غلط سمجھا گیا ہے۔
غلط مطالب کی تصحیح کرتے کرتے، وضاحتیں کرتے،
صفائیاں دیتے آپ تھکنے لگتے ہیں۔
اور ایک دن وہی تعلق پھر سے مر جاتا ہے،
جو اصل میں تو پہلی بار میں ہی مر گیا تھا،
لیکن محض آپکے گمان میں زندہ تھا۔
اعتبار بس ایک ہی بار ہوتا ہے ..
گیا اعتبار دوبارہ نہیں آتا..
ایک بار اعتبار ٹوٹ جائے،
تو پھر آپ کتنا بھی مخلص ہوجائیں دوسرے کو اعتبار نہیں آسکتا۔
سو اگر کوئی تعلق ٹوٹ جائے تو اس کو ایک بار ہی رو لیں ۔ ۔
اور پھر ہمیشہ کے لیے فاتحہ پڑھ لیں۔
Labels:
Abstract
امید کی کرن
امید کی ایک کرن: تھر پارکر میں آنسو کوہلی کا اسکول فوٹو کریڈٹ: ایکسپریس ٹریبیون |
ان انٹرویوز میں ان بچیوں سے تین سوالات کئے گئے۔
Labels:
Gender,
Pakistan,
Sociograph
Sunday, July 17, 2016
خرد کا نام جنوں
ہمارے معاشرے میں خاص کر شہری معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا الزام خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔
خوب ۔
شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اور معاہدے دو یا زائد فریقوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں ورنہ وہ معاہدے نہیں سمجھوتے کہلاتے ہیں۔ لہذہ شادی بھی ایک ایسا ہی معاہدہ ہے جو ایک مرد اور ایک خاتون کے درمیان برابری کی بنیاد پر طے ہوتا ہے اور اسے برابری کی بنیاد پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ لیکن برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں یہ معاہدہ شاذ و نادر ہی برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں شادی دراصل شوہر کی ہوتی ہے۔
یہ ایک یک طرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں دوسرے فریق کا کام صرف پہلے فریق کا حکم بجالانا فرض کرلیا جاتا ہے۔ دوسرا فریق یعنی بیوی پہلے فریق یعنی شوہر کی مرضی کے مطابق سانس لے گی، اس کے خاندان کی خدمت بجا لائے گی۔ اسکی جنسی ضروریات اسکی مرضی اور فریکوئنسی کے مطابق پوری کرے گی، اسکی اجازت سے لوگوں سے میل ملاقات کرے گی، اسکی مرضی اور اجازت کے مطابق ملازمت کرے گی یا نہیں کرے گی۔ گویا اسکی اپنی کوئی شخصیت ، مرضی یا ضروریات نہیں ہیں۔
Labels:
Common Sense,
Gender,
Hypocrisy,
Pakistan,
Sociograph
Wednesday, July 13, 2016
نو عمر بچیوں کی حمایت
عالمی یوم آبادی 2016
دنیا بھر میں ہر سال 11 جولائی کو عالمی یوم آبادی منایا جاتا ہے۔ 11 جولائی 1987 کو دنیا کی آبادی 5 ارب ہوگئی تھی، جس کے بعد کرہ ارض کی بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے دنیا بھر کی توجہ آبادی کے مسائل پر مرکوز کرنے کے لیے ہر سال 11 جولائی کو عالمی یوم آبادی منایا جاتا ہے۔ ہر سال آبادی سے متعلق کسی اہم موضوع کو اس سال کے لیے عالمی یوم آبادی کا عنوان منتخب کیا جاتا ہے۔ جیسے "غربت سے لڑیں، بیٹی کو تعلیم دیں" ، "مساوات تقویت دیتی ہے"، "آپ کی کیا ضروریات ہیں ، بولیں"، مردوں کی شمولیت"، اور تولیدی صحت کی سہولیات کی یکساں فراہمی" وغیرہ وغیرہ۔
اس سال عالمی یوم آبادی کا موضوع ہے Investing in Teenage Girls یعنی نوعمر بچیوں میں سرمایا کاری کرنا یا دوسرے الفاظ میں نو عمر بچیوں کی حمایت کرنا، انہیں تقویت دینا۔ دنیا کی آبادی تقریباً ساڑھے سات ارب (7.4) ہوچکی ہے۔ جس میں نوجوانوں یعنی دس سال سے 24 سال تک کی آبادی 1.8 ارب یعنی تقریباً 25 فیصد ہے۔ اس میں سے کم و بیش 50 فیصد خواتین یا نو عمر بچیاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (UNFPA) کے مطابق اس نو عمر آبادی کا ایک بڑا حصہ (90 فیصد) ترقی پذیر ممالک میں مقیم ہے۔ جس میں ایشیاء اور افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ اس وقت دنیا میں 17 ترقی پذیر ممالک ایسے ہیں جن کی 50 فیصد آبادی 18 سال سے کم عمر ہے۔
Labels:
Gender,
Sociograph
Thursday, July 7, 2016
یادِ رفتگاں
میٹھی عید
رمضان بھر ہمیں میٹھی عید کا انتظار رہتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں نئے کپڑے بس عید کے عید ہی بنتے تھے یا پھر گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد نیا یونی فارم ملتا تھا۔ عید پر دو جوڑے بنتے تھے۔ ایک ریشمی جو عموماً فلیٹ کی پھولدار قمیص اور سادی میچنگ شلوار پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعد میں جب سادی شلوار قمیص کا دور آیا تو پہلے لیڈی کریپ اور پھر کنگ پیلس نامی کپڑے کا سادہ سوٹ اور ساتھ ڈیزائن دار دوپٹہ ، لیکن یہ بہت بعد کی بات ہے۔ہم ابھی اس دور میں ہیں جب دوپٹے کے نام پر ایک دوفٹ لمبی اور چھ انچ چوڑی پٹی کندھے پر پن سے ٹانک دینا کافی ہوتا تھا۔ دوسرا سوٹ کاٹن یا لان کا ہوتا تھا۔
تصویر کے حقوق محفوظ ہیں |
Labels:
Biograph
Wednesday, July 6, 2016
رفتگاں کی یاد
چاند رات
کل چاند رات کو بیٹھے بیٹھے ایسے ہی بچپن کی چاند راتیں اور عید یاد آگئیں۔ بچپن کی چاند رات اب سے کہیں زیادہ ایڈونچرس ہوتی تھی۔ عید کی ساری تیاری تو شروع رمضان میں ہوجاتی تھی، امی اور پڑوس کی چند خواتین مل کر اپنے سارے بچوں کے ساتھ بازار جاکرعید کے لیے کپڑوں اور جوتوں کی شاپنگ کرتے تھے۔ کپڑوں سے بڑھ کر جوتوں کے لیے سارے بچوں کو ناپ کے لیے ساتھ لےجانا ضروری ہوتا تھا۔ جوتے ایک نمبر بڑے خریدے جاتے تھے تاکہ زیادہ دنوں تک قابل استعمال رہیں۔ بچوں کی تعداد کافی ہوتی تھی، ایک بار لالو کھیت میں شاپنگ کے دوران پڑوسن کا ایک بچہ ادھر ادھر ہوگیا، جب ملا تو ایک دکاندار نے فقرہ لگایا کہ اتنے سارے بچوں کو ایک رسی میں باندھ کر چلا کرو۔ عموماً ساری شاپنگ لالوکھیت سے ہوجایا کرتی تھی سوائے چوڑیوں کے۔ چوڑیوں کے لیے چاند رات کا دن مخصوص تھا۔
گول ٹکیا والی مہندی کا جدید ورژن |
Labels:
Biograph
Subscribe to:
Posts (Atom)