Wednesday, February 1, 2017

الجھے سلجھے انور: عمرانہ مقصود



انور مقصود کے بارے میں پڑھ کر بالکل بھی ایسا نہیں لگا کہ میں کچھ ایسا پڑھ رہی ہوں جو میں پہلے سے نہیں جانتی تھی, شاید میرے تصور میں ان کی ایسی ہی شخصیت تھی جیسی اس کتاب سے ظاہر ہوتی ہے۔

My Father's Notebook: Kader Abdolah

ایران کے سیاسی پس منظر میں لکھا ہوا ناول جس میں ایک گونگے بہرے شخص کی کہانی اسکے بیٹے کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ یہ گونگا بہرا انسان پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا لیکن ایک علاماتی خود ساختہ زبان میں اپنے خیالات ایک نوٹ بک میں قلمبند کرتا رہتا تھا۔ اس شخص کو غالباً عوام سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جسے شہنشایت اور اسلامی انقلاب دونوں نے ہی نقصان پہنچایا لیکن وہ صمً بکمً ہر دو کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا رہا اور اپنی دکان میں باری باری پہلے شاہ اور پھر خمینی کی تصویر ٹانگتا رہا۔

خواتین مزاح نگاروں کا انسائیکلوپیڈیا

لینے تو ہم گئے تھے "بذلہ سنجانِ دو عالم" جس پر عرصے سے ہماری نیت خراب تھی اور جسے ہماری یار غار نے ہمیں گفٹنے سے انکار ہی نہیں کیا تھا ،ہمیں پہچاننے سے بھی انکار کر دیا تھا اور کرنا بھی چاہیے تھا۔ انہوں نے ہم سے دو کتابوں کے بارے میں پوچھا کہ یہ تمہیں بھیج دوں اور ہم نے کہا ایک ہم نے پڑھنی نہیں اور دوسری ہمارے پاس ہے، سو تم ہمیں بذلہ سنجان دو عالم بھیج دو یا پھر شفیق الرحمان کا مجموعہ یا پھر شام شعر یاراں یا پھر یہ ساری ۔ اور اس نے کہا کہ" ہیں تم کون ، میں تمہیں نہیں جانتی" اور ہمیں نہ تو خدا ملا ، نہ ہی وصال صنم۔ البتہ سنا ہے کہ ہمیں ایک ڈائری کراچی سے بذریعہ ساہیوال آرہی ہے، لیکن وہ ابھی تک آ ہی نہیں چک رہی۔ 

Wednesday, January 25, 2017

چرس

چرس صرف ایک "چرس" ہی تو نہیں ہوتی۔ پتا نہیں کتنی ساری قسم کی چرسیں بندے کو زندگی کے مختلف ادوار میں خوار کرتی ہیں۔ ہم بھی پرانے چرسی ہیں۔ سب سے پہلی چرس جو یاد ہے وہ چند صفحات پر مشتمل مختصر سائز کی ٹارزن کی کہانیاں اور عمران سیریز تھیں۔ نیا نیا پڑھنا آیا تھا ، محلے کے لڑکوں سے لے لے کر خوب پڑھے ،عمران سیریز پڑھتے ہوئے تو ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ اس دور کی لڑکیاں پتا نہیں کیا کرتی تھیں۔ ہماری لڑکیوں سے کبھی نہیں بنی۔

Wednesday, January 4, 2017

ان سنگ ہیروز اور ہیروئن ز

بہن نے چائے بنائی ، موڈ نہیں تھا ، انکار کردیا۔ بھئی پوچھ کر بنانی چاہیے تھی ناں

حسن نے مستقل "پھپھو میرے ساتھ کھیلو پلیج" کی رٹ لگائی ہوئی تھی۔ ہم فیس بک پر دوستوں کے ساتھ گپیں لگا رہے تھے۔ اسے کہا پھپھو "کام " کر رہی ہیں۔ آپ جاو ممی کے پاس۔ وہ مایوس ہوکر "بھائی گچھہ [غصہ] آرا ہے" کہہ کر منہ بسور کر چل دیا۔

ابو نے کہا کہ چائے بنا کر مس کال کردینا۔ چائے بنائی اور اسکے بعد موبائل میں منہ ڈال کر بیٹھ گئے۔ ابو انتظار ہی کرتے رہے مس کال کا۔

فاطمہ اوپر سے دو بار نیچے آئی، پھپھو کا منہ موبائل میں ہی تھا۔ فائنلی کہہ گئی کہ پھپھو تو موبائل میں ہی گھسی رہتی ہیں۔ 

Wednesday, December 21, 2016

کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی

کوہِ حنیف مڈ والکینو مہم 


ایک معصوم سا پہاڑ: دور کے ڈھول سہانے
پکچر کریڈٹ: محمد حنیف بھٹی صاحب

کہتے ہیں کہ ایک کوہ نورد یا ایک ٹریکر پر ہر ٹریک کے دوران تین مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ابتداء میں پرجوش یا ایکسائٹمنٹ، درمیان میں پچھتاوا یا ریگریٹ اور تیسری پھر سے کسی اور نئی مہم کے لیے تیاری۔ ہم اس وقت دوسرے مرحلے سے گزر رہے تھے۔ یعنی پچھتاوا۔ بھلا ہمیں کس نے کہا تھا کہ جان بوجھ کر جان جوکھم میں ڈالیں۔ 

Friday, December 16, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ نہم / اختتامیہ)

چلو اب گھر چلیں ساغر ، بہت آوارگی کرلی 


صبح سویرے ہی روشنی ہونے سے آنکھ کھل گئی۔ اکا دکا لوگ جاگ چکے تھے لیکن اپنے اپنے مقام استراحت پر "اینڈنے" میں مصروف تھے۔ "اینڈنا"یہ ہماری ذاتی ایجاد کردہ اصطلاح ہے، یعنی آنکھ کھلنے کے بعد کی نیند ، الارم بجنے یا امی کے جگانے کے بعد جو ایک نیند کا پیریڈ ہوتا ہے اسے ہم اینڈنا کہتے ہیں۔"ہاں بس پانچ منٹ اور" والی نیند، اور جو سواد اس نیند میں ہوتا ہے وہ ساری رات کی نیند میں نہیں ہوتا۔ پر ہر گزرتے منٹ کے ساتھ روشنی بڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی گرمی بھی۔ چار و ناچار ہر ایک اٹھ بیٹھا، ناشتے کے لیے چائے چڑھا دی گئی۔ گرمی اور حبس اتنا تھا کہ دل کرتا تھا اٹھ کے بھاگ لو ۔ ابھی سات بھی نہیں بجے تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ابھی سب دوبارہ آبشار کی طرف جائیں گے، واپس آکر ناشتہ کریں گے اور پھر نو بجے تک واپسی کے لیے نکلیں گے۔